• صارفین کی تعداد :
  • 2403
  • 11/11/2013
  • تاريخ :

عراق اور ايران ميں قمہ زني

عراق اور ایران میں قمہ زنی

سۆال:

عراق اور ايران ميں قمہ زني کي مختصر تاريخ کيا ہے؟

 

جواب:

قمہ زني بھي شبيہ خواني کي مانند ابتداء ہي سے علماء اور مراجع اور ان کے پيروکاروں اور مقلدين کے درميان متنازعہ ہے اور اس سلسلے ميں استفتاء اور افتاء کا سلسلہ جاري رہا ہے-

قمہ زني عراق کي مقامي رسم نہيں بلکہ باہر سے آئي ہے اور اس کي جڑيں عربي نہيں ہيں- (1)

کاظم دجيلي لکھتے ہيں: "عراقي عرب بيسويں صدي عيسوي کے آغاز تک ان رسومات ميں شرکت نہيں کرتے تھے؛ يہ اعمال ابتداء ميں عراقي ترکوں، صوفي فرقوں اور کردوں کے درميان رائج تھے- (2)

نجف اشرف ميں عاشورا سنہ 1919 کے سلسلے ميں برطانوي اہلکاروں کي رپورٹ ميں درج ہے کہ اس سال 100 ترک شيعہ عزاداروں نے قمہ زني کي رسم ادا کي تھي-

سيد محمد بحرالعلوم لکھتے: "50 يا 60 سال قبل جبکہ ميں نجف ميں تھا، صرف چند ترک انجمنيں اس شہر ميں تھيں- يہ لوگ ايام عزا ميں سيدبحرالعلوم بزرگ کے گھر جا کر ان سے اجازت لے کر امام حسين (ع) کے بارے ميں سوزناک اشعار پڑھتے تھے- ان ميں سے بعض افراد مصائب کے دوران مختصر سے زخم بھي اپنے بدن پر وارد  کرتے تھے- يہ سلسلہ بڑھتا گيا اور اس ميں تغيّر وتبدل وقوع پذير ہۆا تا آنکہ 1935 ميں ياسين ہاشمي کي وزارت کے پہلے دور ميں ـ قمہ زني کي رسم ممنوع ہوئي ـ تو قمہ زني عروج کو پہنچي- درحقيقت حکومت کي جانب سے دباۆ کا اثر معکوس تھا اور قمہ زني کي ايک انجمن کے بجائے تين انجمنيں معرض وجود ميں آئيں- (3)

110 سال کي عمر ميں دنيا سے رخصت ہونے والے کربلا کے ايک معمر باشندے الحاج حميد راضي (1843ـ 1953) عزاداري کے سلسلے ميں کہتے ہيں: ہماري نوجواني کے زمانے ميں کربلائے معلٰي ميں قمہ زني مرسوم نہ تھي- (4)

نجف اور کربلا کے بزرگوں ميں سے کسي نے بھي نہيں بتايا کہ قمہ زني انيسويں صدي کے نصف اول ميں بھي عراق ميں مرسوم تھي- يہ رسومات پہلي مرتبہ قزلباش ترکوں کے توسط سے مرسوم ہوئيں جو امام حسين (ع) کي زيارت کے دوران خاص قسم کي تلواروں ک ذريعے اپنے سروں پر ضربيں لگاتے تھے- (5)

تاريخ گواہ ہے کہ قمہ زني ايران ميں بھي صفويوں سے قبل مرسوم نہ تھي- سوال صرف يہ ہے کہ کيا يہ رسم صفوي دور ميں معرض وجود ميں آئي ہے يا ان کے بعد قاجار کے دور ميں؟- (6)

 

حوالہ جات:

1- تراجيديا کربلاـ ابراہيم الحيدري ترجمہ علي معموري صفحہ 475-

2- عاشوراء في النجف و کربلا، ص287؛ جيات عراقي من وراء البوابة السوداء، محمد درّہ ص24-

3- سيد محمد بحرالعلوم کا انٹرويو ـ مجلہ «النور» شمارہ 74 جولائي 1997-

4- ڈاکٹر شاکر لطيف کے ساتھ گفتگو – 12 اپريل 1996 – کتاب تراجيديا کربلا-

5- النجف الاشرف عاداتها و تاليدها،طالب علي شرقي، ص220 تا 223-

6- قمہ زني سنت يا بدعت ؛ مهدي مسائلي ص19-

 

 

ترجمہ : فرحت حسین مہدوی


متعلقہ تحریریں:

کربلا حيات بخش کيوں

کتاب شريف تہذيب الاحکام کا تعارف