• صارفین کی تعداد :
  • 4466
  • 10/24/2013
  • تاريخ :

روايات اسلامي اور تقيہ

روایات اسلامی اور تقیہ

''تقيہ'' قرآن و سنت كے آئينہ ميں(حصّہ اول)

تقيہ اور نفاق (حصّہ دوم)

کتاب الہي ميں تقيہ (حصّہ سوم)

اسلامي روايات ميں تقيہ (حصّہ چہارم)

تقيہ اور اسلامي روايات (حصّہ پنجم)

2-جناب فخر رازى اس آيت (الا ان تتقوا منہم تقاة )(6)كى تفسير ميں كہتے ہيں كہ آيت كا ظہور يہ ہے كہ تقيہ غالب كافروں كے مقابلے ميں جائزہے ( الا ان مذہب الشافعى -رض-ان الحالة بين المسلمين اذا شاكلت الحالة بين المسلمين و المشركين حلّت التقيہ محاماة على النفس ) ليكن مذہب شافعى يہ ہے كہ اگر مسلمانوں كى كيفيت بھى ايك دوسرے كے ساتھ مسلمين و كفار جيسى ہوجائے تو اپنى جان كى حفاظت كے لئے تقيہ جائزہے -

اس كے بعد حفظ مال كى خاطر تقيہ كے جواز پر دليل پيش كرتے ہيںكہ حديث نبوى ہے (حرمة مال المسلم كحرمة دمہ ) مسلمان كے مال كا احترام اس كے خون كى مانند ہے ) اور اسى طرح دوسرى حديث ميں ہے (من قتل دون مالہ فہو شہيد) جو اپنے مال كى حفاظت كرتے ہوئے ماراجائے وہ شہيد ہے (7)-

تفسير نيشاپورى ميں كہ جو تفسير طبرى كے حاشيہ پر لكھى گئي ہے يوں بيان كيا گيا ہے كہ قال الامام الشافعى :

(تجوز التقيہ بين المسلمين كما تجوز بين الكافرين محاماة عن النفس ) (8)

امام شافعى فرماتے ہيں كہ جان كى حفاظت كى خاطر مسلمانوں سے تقيہ كرنا بھى جائز ہے - جس طرح كفار سے تقيہ كرنا جائز ہے -

3-دلچسب بات يہ ہے كہ بنى عباس كى خلافت كے دور ميں بعض اہل سنت محدثين (قرآن مجيد كے قديم ہونے ) پر عقيدہ ركھنے كيوجہ سے بنو عباس كے حكّام كى طرف سے دباۆ كا شكار ہوئے انہوں نے تقيہ كرتے ہوئے اعتراف كر ليا كہ قرآن مجيد حادث ہے اوراس طرح انہوں نے اپنى جان بچا لى -

''ابن سعد'' مشہور مورخ كتاب طبقات ميںاور طبرى ايك اور مشہور مورخ اپنى تاريخ كى كتاب ميں دو خطوط كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ جو مامون كى طرف سے اسى مسئلہ كے بارے ميں بغداد كے پوليس افسر (اسحق بن ابراہيم) كى طرف ارسال كيے گئے - ( جاري ہے )