• صارفین کی تعداد :
  • 621
  • 7/30/2013
  • تاريخ :

ايران کےسائنسي مقالوں کي اشاعت پر پابندي

ایران کےسائنسی مقالوں کی اشاعت پر پابندی

امريکہ نے ايران کےخلاف اپني دشمنانہ پاليسياں جاري رکھتے ہوئے ايک بار پھر سائنسي جريدوں اور بولٹن ميں ايران کےسائنسي وتحقيقاتي مقالوں کي اشاعت پرپابندي عائد کر دي ہے-

بي بي سي کي رپورٹ کےمطابق اہم سائنسي و تحقيقاتي جريدوں کي اشاعت کرنے والے ٹيلر اور فرانسيس پبليکيشنس نے اپنے زير نظر جريدوں کو حکم ديا ہے کہ امريکہ اور يورپي يونين کي طرف سے ايران پر عائد پابنديوں پر عمل کريں-

ايران کےخلاف امريکہ کي يکطرفہ پاليسياں روز بروز بڑھتي جا رہي ہيں يہاں تک کہ امريکي حکام کے فريبي انکار کے باوجود ايران کےميڈيکل سازوسامان اور دواۆں کي فروخت ميں بھي روکاوٹ کھڑي کي جا رہي ہے لہذا سائنسي وتحقيقي مقالوں پر پابندي کا دائرہ وسيع ہونا کچہ زيادہ حيرت انگیز نہیں ہے-

ان روکاوٹوں کے باوجود آئي ايس سي کےسائنسي مقالوں کےبارے ميں اطلاعات فراہم کرنے والي ويب سائٹ کي رپورٹ پر ايک نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ نئے عيسوي سال کے آغاز سے اب تک دنيا کے معتبر بين الاقوامي جريدوں ميں ايراني دانشوروں کے انيس ہزار آٹھ سو بياسي مقالے شائع ہوئے ہيں جو دنيا ميں مجموعي سائنسي پروڈکشن کاچھ  اعشاريہ ايک فيصد ہے اور اس طرح اسلامي جمہوريہ ايران کو اس وقت دنيا ميں علمي و سائنسي خلاقيت ميں پندرہواں مقام حاصل ہے-

اس سےقبل ہالينڈ کے الزوير پبليکيشن نے جو بڑي تعداد ميں معتبر سائنسي جريدے شا‏‏‏ئع کرتا ہے، اپنے امريکي مديروں ، ججوں اور ايڈيٹروں کو  ان ايراني دانشوروں کےمقالوں کو قبول کرنے سے روک ديا ہے جوسرکاري اداروں ميں سرگرم عمل ہيں-

امريکہ کي وزارت خزانہ نے ايک سرکلر جاري کرکے ہراس مصنف ومحقق سےرابطے کو ممنوع قرار  دے ديا ہے جو بالواسطہ يا براہ راست ايران کے سياسي اور حکومتي اداروں يا کسي ايسے ادارے سے منسلک ہو جس کا تعلق يا رابطہ ايران کے سينٹرل بينک سے ہو-

البتہ يہ بھي دعوي کياگيا ہے کہ يہ پابندياں غيرسرکاري اداروں، يونيورسٹيوں اور انسٹيٹيوٹ پر عائد نہيں ہوتيں- جبکہ اسلامي جمہوريہ ايران کي ايک بنيادي پاليسي سائنسي وتحقيقي سرگرميوں کي حمايت ومدد کرنا ہے اس زاويے سے اگر ايران کےسائنسي مقالوں کےسرچشمہ پر نگاہ ڈالي جائے تو غالبا وہ حکومتي  ہي شمار ہوتے ہيں اور اس طرح کے فرق کےقائل ہونے کا کوئي مطلب نہيں ہے-

پابنديوں کادائرہ علمي و سائنسي موضوعات تک وسيع کر دينا مغرب کي نگاہ ميں ايران کي ايٹمي پابنديوں کي بنا پر اسے تنہا کرنےکےلئے ہے-

امريکي فرمان کےمطابق وہ مقالے جو ايٹمي ٹيکنالوجي يا سائنسي وعسکري علوم  کي پاليسي کےبارے ميں ہوں وہ پابنديوں کےدائرے ميں آتے ہيں جبکہ ايران کي ايٹمي سرگرمياں اين پي ٹي کے دائرے  ميں اور آئي اے اي اے کےآئين کےمطابق ہيں-

ايٹمي انرجي کي عالمي ايجنسي نے آج تک کبھي بھي اس کي تصديق نہيں کي کہ ايران کي ايٹمي سرگرمياں عسکري مقاصد کي جانب گامزن ہيں-

مسلمہ امر يہ ہے کہ بين الاقوامي پروٹوکول اور کنونشنوں کي بنياد پرانفارميشن تک دسترس اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کا فطري حق شمار ہوتا ہے-لہذا اس طرح کي پابندياں ناکام ہو کر رہيں گي اور عالمي علمي وسائنسي برادري اس طرح کےاقدامات کوتسليم نہيں کرےگي -دوسري طرف دنيا ميں بيس ہزار سے زيادہ سائنسي جرنل شائع ہوتے ہيں جن ميں اکثر نےايراني سائنسدانوں اور دانشوروں کےمقالوں کے لئے اپني باہيں پھيلا رکھي ہيں اورعالمي سائنسي وعلمي يکجہتي بھي اتني مضبوط ہے کہ انتہاپسند اور اس طرح کےمضبوط رابطے سے بےخبر سياستداں پابنديوں کےہتھکنڈے سے سائنس وٹيکنالوجي کے لين دين کي آزاد تحريک کو اپنے کنٹرول ميں لينا چاہتے ہيں ليکن وہ کسي تنيجے پر نہيں پہنچيں گے اور آخرکار خود انھيں کو پابنديوں ميں ناکامي کا منہ ديکھنا پڑے گا-

 

اردو ریڈیو تھران


متعلقہ تحریریں:

ايران امريکا مذاکرات پر رد عمل

انتخابات اسلامي جمہوريہ کا ستون