• صارفین کی تعداد :
  • 2401
  • 8/23/2013
  • تاريخ :

خمس کي رقم کا استعمال

خمس کی رقم کا استعمال

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ اوّل)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں(حصّہ دوّم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں(حصّہ سوّم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ چہارم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ پنجم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ ششم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ ہفتم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ ہشتم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ نہم)

سابقہ بحث کو ديکہتے ہوئے يہ کہا جاسکتا ہے کہ خمس سادات کے لئے امتياز کہنا ، غلط ہے ، اس لئے کہ اسلام کہتا ہے کہ صرف فقير سيد کو خمس دو ، اسکے علاوہ يہ بھي شرط ہے کہ اسے سال بھرکے خرچ سے زيادہ نہ دو - ليکن ہمارے لئے ايک دوسري شکل ميں يہ اعتراض باقي رہ جاتا ہے کہ اس عظيم بجٹ کو اسلام نے کس مصرف کے لئے معين کيا ہے ؟ تو ہمارے آئمہ نے اس کا جواب يہ ديا ہے کہ در اصل اس آيہ ميں جو سہم خدا ، سہم رسول ، سہم قرابت دار ، سہم يتيم ، سہم مسکين اور سہم ابن سبيل کا ذکر آيا ہے اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ ان ميں جا کر مال خمس کو تقسيم کرو - بلکہ يہ لوگ ان سہموں کے عنوان ہيں - خمس کا بنيادي اور اصل مقصد يہ ہے کہ رسول کے دست مبارک ميں پہونچے اور ان کے بعد آئمہ کے پاس پہونچے - کيونکہ رسول اور امام عليہ السلام اس بجٹ سے سادات کي کفالت کرتے ہيں- اگر ايک وقت ايسا آجائے کہ خمس کي رقم ان حضرات کے پاس نہ پہونچ سکے تو دوسرے مَد سے ان کي کفالت کريں اور اگر يہ رقم پہونچ گئي تو معمول کے مطابق ان کي کفالت کريں - اور بقيہ رقم کو عمومي کاموں پر خرچ کريں - يہي وجہ ہے کہ اگر چہ ہمارے زمانے ميں فقير سيد زيادہ ہيں اور ان سے زيادہ خمس دينے والے موجود ہيں ليکن بعض علماء احتياط کرتے ہيں اور فرماتے ہيں کہ سادات کو خمس بغير مجتہد اور حاکم شرع کي اجازت کے نہ ديں - اسي بنا پر آئمہ عليہم السلام نے فرمايا ہے کہ ”‌ لہ فضل و عليہ ،نقص “يعني سادات امام عليہ السلاميا نائب امام کي کفالت ميں رہيں اگر مال خمس ميں کمي واقع ہو جائے تو امام عليہ السلام يا نائب امام دوسري مدسے انکي ضرورت پورا کريں اور اگر خمس زيادہ مل جائے تو اسے سادات فقير کو نہ ديں بلکہ مسلمانوں کي عام ضروريات پر خرچ کريں - لہذا اگر کوئي يہ خيال کر ے کہ شيعہ مذہب نے سادات کے لئے ايک عظيم بجٹ قرار ديا ہے اور اس طرح سے انہيں ثروت مند بنانا چاہا ہے، غلط ہے اور يہ عوامي کہاوت کہ ”‌سيد کو خمس ملتا ہے چاہے اسکے گہر کا ناۆ دان سونے کا ہو، جھوٹ ہے بلکہ سچ يہ ہے کہ اگر وہ کام کرنے کي طاقت رکھتا ہے تو چاہے اسکے گہر ميں کچھ بہي نہ ہو اسے خمس نہيں مل سکتا ہے - ہمارا اسلام اور ہماري فقہ جس بات کو کہتي ہے اور جو چيز احکام شرعي کي کتابوں ميں تحرير ہے وہ وہي ہے جو يہاں پر عرض کيا گيا - ( جاري ہے )

 

بشکريہ مطالعات شيعہ ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

کيا رسول اللہ کے زمانے ميں بھي شيعہ تھے؟

شيعه مکتب کي ہاں فروع دين دس ہيں جو قرآن و حديث سے مأخوذ ہيں