• صارفین کی تعداد :
  • 2638
  • 8/2/2013
  • تاريخ :

خمس پر اہل سنّت کي دليلوں کا جواب

خمس پر اہل سنّت کی دلیلوں کا جواب

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ اوّل)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ دوّم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ سوّم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ چہارم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ پنجم)

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں (حصّہ ششم)

علاوہ برايں ، پيغمبر اکرم کو اگر مال دنيا کي ضرورت ہے تو صرف اس دنيا ميں ہے ، بعد از وفات آپ کو ہرگز اسکي ضرورت نہيں ہے - ايسي صورت ميں آپ کے حصّے کا خمس کيا ہو گا اور کسے ديا جائے گا؟

بعض علمائے اہل سنت کہتے ہيں کہ زمانہ وفات ميں سہم پيغمبر بھي سہم خدا کي طرح ساقط ہو جانا چاہئے اور خمس بقيہ چارگروہوں ميں تقسيم ہونا چاہئے - يہ راہ حل آيت شريفہ کے اطلاق کے منافي ہے ، آيت ميں موت يا حيات کي قيد و شرط کا ذکر نہيں ہے -

بعض ديگر کہتے ہيں کہ بعد وفات بہي سہم رسول باقي ہے اور اسے خليفہ وقت تک پہونچنا چاہئے - يہ راہ حل خود انہيں کے بنائے ہوئے معيار پر پورا نہيں اترتا، کيونکہ بعد از وفات يقينا رسول کسي چيز کے محتاج نہيں ہيں -

اور اگر بعد از وفات ، رسول کے محتاج و ضرورت مند نہ ہونے کے باوجود آپ کا سہم باقي ہے تو پھر آپ سہم خدا کے منکر کيوں ہيں؟ اور اگر بے نياز ہونے کے سبب سہم خدا ساقط ہو جاتا ہے تو سہم پيغمبر بہي کم از کم زمانہ وفات ميں ساقط ہو جانا چاہئے -

اس مختصر بحث سے يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ مذہب شيعہ کا نظريہ بر حق و قرآن مجيد کے مطابق ہے جبکہ اہل سنت کا قول کتاب خدا کے صريح احکام کے خلاف ہے ، مزيديہ کہ ان کا ايجاد کردہ معيار بھي ثابت نہيں ہے -

سورہ انفال کي پہلي آيت يہ ہے :”‌ يسئلونک عن الانفال ، قل الانفال للّہ و الرسول “ (7)”‌ پيغمبر ! يہ لوگ آپ سے انفال کے بارے ميں سوال کرتے ہيں تو آپ کہہ ديجئے کہ انفال سب اللہ اور رسول کے لئے ہيں -

انفا ل کيا ہے ؟ اہل سنت کہتے ہيں کہ انفال سے مراد جنگي غنائم ہيں اور آيہ انفال جنگي سے مربوط ہے -تعجب اس پر ہے کہ بعض حضرات نے قرآن کے فارسي ترجمہ ميں سورہ انفال کا نام سورہ غنائم ( يا جنگي غنائم ) رکھا ہے جبکہ يہ غلط ہے - ہمارے ائمہ عليہم السلام نے فرمايا ہے کہ انفال صرف جنگي غنائم سے مخصوص نہيں بلکہ انفال ہر اس سرمايہ کو کہتے ہيں جو بغير زحمت اور کام کے ، مفت ہاتھ لگ جائے جيسے وہ چيزيں جو خود بخود پيدا ہوئي ہيں مثلا جنگل اور پہاڑوں کے دامن ميں زرخيز زمين وغيرہ -يہ سب اللہ اور رسول کا مال ہے اور رسول اور امام عليہ السلامہر ايک اپنے دور ميں حاکم مسلمين ہونے کي حيثيت سے راہ خداميں جہاں مصلحت سمجھيں خرچ کرتے ہيںاور انہيں انفال ميں ايک جنگي غنائم ہيں- لہذا آيت ميں جنگي غنائم کو انفال کا جزء قرار ديا گيا ہے - اور آيہ خمس ميں خدا وند عالم نے پيغمبر کو يہ اذن ديا ہے کہ اس عمومي مال کا چار حصہ فوجيوں ميں تقسيم کريں -جو در حقيقت فوجيوں کا مال نہيں ہے اور فوجيوں کو يہ حق بہي نہيں ہے کہ وہ يہ کہيں کہ جنگ ہم نے کي ہے لہذا يہ ہمارا مال ہے - اسي لئے يہ کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے غنيمت کے لئے جنگ لڑي ہے تو تمہارا جہاد سرے سے باطل ہے اور اگر خدا کے لئے جنگ کي ہے تو خدا چاہے گا تو تمہيں کچھ عطا کر دے گا - شيعوں کي نگاہ ميں جنگي غنائم انفال کا حصہ ہيں اور يہيں سے ہميں ايک دوسرے قانون کا سراغ ملتا ہے کہ جو چيزيں پہاڑوں کي چوٹيوں اور گھاٹيوں ميں ملتي ہيں -وہ بھي انفال کا حصہ ہيں ، اور اس پر خدا اور رسول کا اختيارہے يعني کسي کي ذاتي ملکيت نہيں ہے - ( جاري ہے )

 

بشکريہ مطالعات شيعہ ڈاٹ کام

 

متعلقہ تحریریں:

تشيع کا عمومي مفہوم

تشيع اسلام کا ہم عمر