• صارفین کی تعداد :
  • 4042
  • 3/21/2013
  • تاريخ :

شيخ سعدي کا نام، نسب، ولادت اور بچپن

سعدی شیرازی

اس کا نام شرف الدين اور مصلح لقب اور سعدي تخلص ہے- سر گوارا وسلي نے اس کي ولادت 589 ہ لکھي ہے- مگر تحقيق يہ ہے کہ وہ سال مذکور سے بہت برسوں پہلے اتابرک مظفرالدين تکلہ بن زنگي کے عہد حکومت ميں پيدا ہوا ہے- شيخ کي ولادت کے کئي برس بعد اتابک سعد زنگي اپنے بـھائي تکلہ بن زنگي کي جگہ تخت شيراز پر متمکن ہوا تھا- چونکہ شيخ نے سعد زنگي کے عہد ميں شعر کہنا شروع کيا تھا اور نيز شيخ کا باپ ،عبداللہ شيرازي، سعد کے ہاں کسي خدمت پر مامور تھا، اس ليے اس نے اپنا تخلص سعدي قرار ديا- شيخ کا باپ جيسا کہ اس کے کلام سے معلوم ہوتا ہے ايک با خدا اور متورع آدمي تھا- شيخ کے بچپن کا حال اس سے زيادہ نہيں کہ نماز روزے کے مسائل اس کو بہت تھوڑي عمر ميں ياد کرائے گئے تھے اور بچپن ہي ميں اس کو عبادت، شب بيداري اور تلاوت قرآن مجيد کا کمال شوق تھا- عيد اور تہواروں ميں ہميشہ باپ کے ہمراہ رہتا تھا اور کيں آوارہ پھرنے نہ پاتا تھا- باپ اس کے افعال و اقوال کي نگراني عام باپوں کي نسبت بہت زيادہ کرتا تھا اور بے موقع بولنے پر زجر و توبيخ کرتا تھا- شيخ نے اپني تربيت کا بڑا سبب اسي باپ کي تاديب اور زجر و توبيخ کو قرار ديا ہے- چنانچہ وہ بوستان ميں کہتا ہے:

نداني کہ سعدي مکان از چہ يافت

نہ ہامون نوشت و نہ دريا شگافت

بخري بخورد از بزرگان قفا

خدا دادش اندر بزرگي صفا

ليکن شيخ کے بعض اشعار سے ثابت ہوتا ہے کہ باپ اس کو کم سن چھوڑ کر مر گيا تھا- باپ کي وفات کے بعد غالبا شيخ کي والدہ نے اس کو تربيت کيا ہوگا، کيونکہ اس کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جواني ميں يہ لکھا ہے کہ علامہ قطب الدين شيرازي جو کہ محقق طوسي کا شاگرد رشيد اور ہلاکو خان کا مصاحب خاص تھا، شيخ کا مامون يا قريب رشتہ دار تھا- مگر بعض تذکروں سے يہ بھي معلوم ہوتا ہے کہ شيخ اور علامہ کے باہمي ايسي بے تکلافانہ ہنسي اور چہل ہوتي تھي جو مامون اور بھانجوں ميں نازيبا معلوم ہوتي ہے- بہر حال شيخ اور علامہ دونوں ہم عصر تھے اور شايد کچھ قرابت بھي رکھتے ہوں-

شعبہ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

پروين اعتصامي کي زندگي پر ايک مختصر نظر