• صارفین کی تعداد :
  • 2942
  • 2/10/2013
  • تاريخ :

حکومت کا سرچشمہ اور اس کا مقصد

حکومت کا سرچشمہ اور اس کا مقصد

عدالت

امام خميني (رح) جب اسلام کي بازگشت کي بات کرتے ہيں تو ان مي باتوں سے ايسے انسان پسند مکتب فکر سنائي ديتي ہے جس نے انقلاب کے کچھ ہي عرصے بعد سارے ايران کو اپني لپيٹ ميں لے ليا- وہ اپني تصنيفات مثلا "دروس ولايت فقيہ" اور "منشورہاي انقلاب اسلامي" ميں مختلف مقامات پر "مطلق طاقت" اور آمريت کي مخالفت جب کہ عدالت، انسانيت اور تقوي و غيرہ کے حق ميں بات کرتے ہيں-

مثال کے طور پر وہ کہتے ہيں:

" حکمران اگر عادل نہ ہو تو وہ مسلمانوں کے حقوق کي ادائيگي، ٹيکسز کي وصولي اور ان کے صحيح استعمال اور عدالتي قوانين کو لاگو کرنے ميں عدالت کي مراعات نہيں کرے گا"-

يا ايک اور جگہ کہتے ہيں:

"حضرت پيغمبر (ص) نے معاشرتي عدالت گو پھيلانے کي غرض سے دنيا کي تمام حکومتوں کي طرح ايک حکومت تشکيل دي-"

امام خميني (رح) نے ہميشہ اس نظريي کا تکرار کيا ہے کہ عدالت، صلح، امن عامہ، آسائش، استقلال اور مساوات کے تحقق کي اطلي شرط ہے- حکومت کا مقصد ان مسائل کو حل کرنے کے علاوہ کچھ نہيں-

"اسلامي حکومت، اسلامي جمہوريت اور اسلامي عدل کو برقرار کريں- اسلامي عدالت کے ساتھ سب آزادي، استقلال اور آسائش سے زندگي بسر کريں گے"-

يقينا آمرانہ حکومت کي اصليت اور اس کي فطرت عدالت کے قيام کو نا ممکن بنا ديتي ہے- اگر چہ عدالت کا قيام ايک خالص جمہوري حکومت ميں بھي امکان پذير ہے ليکن چونکہ امام خميني (رح) خالص جمہوري حکومت ميں کچھ عيوب کا مشاہدہ کرتے ہيں لہذا وہ جمہوري اسلامي (اسلامي جمہوريت) کي طرف مائل ہوجاتے ہيں-

البتہ اس صورت ميں جب اسلامي حکومت کے معرض وجود ميں آنے کي شرائط موجود ہوں بد قسمتي سے اکثر حکومتوں ميں حکمران اور اس کے ہمراہ افراد عدالت کے راستے پر گامزن نہيں ہوتے اور راہ اعتدال کو مد نظر رکھتے اور حکومت کو "حکومت مطلقہ" ميں تبديل کرديتے ہيں يا اس کو ناقص انساني عقلوں کے ہاتھوں ايک کھيل بنا ديتے ہيں-

شعبہ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

امام رح کے نزديک محدوديت اور مشروطيت کے موضوعات (عدالت اور امر بالمعروف و نہي عن المنکر )