• صارفین کی تعداد :
  • 1651
  • 12/20/2012
  • تاريخ :

بي بي شہربانو (دوسرا حصہ)

سیمین دانشور

سیمین دانشور اور ان کی کہانیاں

بس نے مسافروں کي صلوات پڑھنے کي آوازوں کے درميان پيچھے کو حرکت کي، پھر گھوم کر دوسري بسوں کے درميان سے باہر نکل آئي- کئي سڑکوں سے گزر کر آخر وہ شہر رے جانے والي بڑي سڑک پر بڑھنے لگي- مريم نے اماں کا ہاتھ تھام رکھا تھا- اپني بغل ميں دبا ہوا بقچہ اسے بہت بھاري لگ رہا تھا- اُدھر سياہ چادر تھي کہ اس کے سر سے ڈھلکي آتي تھي، اور اس کي سمجھ ميں نہ آتا تھا کہ کس کا دھيان رکھے- اس نے چادر کے کونے کو دانتوں ميں دبا ليا- بس کے ہر جھکولے پر وہ دونوں بھي جھول جاتے- مريم کو ڈر لگ رہا تھا کہ کہيں بس کے فرش پر نہ لڑھک پڑيں- يعني اگر بس کے فرش پر لڑھکنے کي جگہ ہو تو-

جب مريم اپني حالت کي ذرا عادي ہو گئي تو اس کي نظر ايک بوڑھي عورت پر پڑي جو معلوم ہوتا تھا بہت دير سے ان دونوں پر نظر جمائے ہوے ہے- مريم نے آنکھوں ہي آنکھوں ميں اس سے التجا کي- وہ ہڈيالے بدن کي تھي اور اس کا کوبڑ چادر ميں ابھرا ہوا لگتا تھا- آخر بڑي بي نے سرک کر تھوڑي سي جگہ پيدا کي- آگے جھک کر مريم کي اماں کا ہاتھ پکڑا اورانھيں اپنے برابر بٹھا ليا- اس کے برابر ميں بيٹھي جوان عورت زيرلب بولي، ”‌ہونھ!“ اور سمٹ کر بيٹھ گئي-مريم نے بغل ميں دبا ہوا بقچہ اماں کي گود ميں رکھ ديا اور بس کے آہني ڈنڈے کو پکڑ کر کھڑي ہو گئي- اب اسے کچھ سکون ملا- بڑي بي کے دستي پنکھے کي ہوا اس تک پہنچ رہي تھي- رفتہ رفتہ اس کا چہرہ کھل اٹھا اور وہ بڑي بي کي طرف ديکھ کر مسکرائي-

جوان عورت اونچي آواز ميں بولي، ”‌اور کسي کا معاملہ ہو تو ماں بن جاتي ہےں، ميري بات ہو تو سوتيلي ماں-“ بڑي بي نے اسے ٹوکا، ”‌بس کر، بس...“

بس کے بے شيشہ اور بے پردہ دريچے سے ڈوبتے سورج کي روشني اندر آ رہي تھي- بس کي جھکولوں اور بے آرام گہوارے کي سي گرمي سے مريم کو نيند آنے لگي-عورتيں اسي کي طرح بس کے سيٹوں کے درميان کے حصے ميں کھڑي تھيں اور اپنے ہاتھوں ميں کوئي نہ کوئي چيز تھامے ہوے تھيں، اس ليے اسے اپنا بھائي نظرنہ آتا تھا- ايک بار بس کے جھکولے سے عورتيں لہرا کر ايک طرف کو ہوئيں تو اسے بھائي کے چہرے کي جھلک دکھائي دي-وہ نوجوان سے باتيں کر رہا تھا- وہ سوچنے لگي، ”‌کيا باتيں کر رہا ہو گا؟“اس کا تخيل راہ پر لگ گيا- اگر ميں اس کي جگہ ہوتي تو ضرور نوجوان کو رام کرنے کي کوشش کرتي- شادي کي عمر کا ہے، مسيں بھيگ رہي ہيں- کہتي، ”‌بھائي صاحب، ديکھيے- ميري ايک بہن ہے جو شادي کے قابل ہے-“ نہيں، يوں نہيں- کہتي، ”‌ميري بہن پورے گھر کي ديکھ بھال کرتي ہے-ہاتھ ميں ايسا رس ہے کہ کھانے والا رال ٹپکا دے- کوٹ پتلون پرايسي استري کرتي ہے کہ کيا دکان پر ہوتي ہوگي-پانچ جماعتيں پڑھي ہوئي ہے...تاريخ، جغرافيہ، حساب...“ پھر کہتي، ”‌بھائي صاحب، آپ کے کام کون کرتا ہے؟آپ کي جرابيں کون رفوکرتا ہے؟“نہيں، اس سے بھي کچھ فائدہ نہيں- ممکن ہے وہ جواب ميں کہے، ”‌ميري ماں“، يا ”‌بہن“- بہتر ہو گا کہ بھائي نوجوان سے کہے، ”‌بھائي صاحب، کيوں نہ ہم دونوں اپنا اپنا گھر بسائيں- شادي کريں اور گھربار کي فکر کريں-“نہيں، ميں بھي کتني بے وقوف ہوں- نوجوان اپني بہن کا ہاتھ بھائي کے ہاتھ ميں تھما دے گا اور ميں يونہي پوٹلي پکڑے کھڑي رہ جاۆ ں گي- وہ زيادہ چالاک ہے؛ عمر ميں بھي بڑا ہے-

جاری ہے

ترجمہ: اجمل کمال اور ڈاکٹر وفا يزدان منش

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان