• صارفین کی تعداد :
  • 6244
  • 12/11/2012
  • تاريخ :

علم قرات قرآن علوم اسلامي ميں سے قديم ترين علم ہے

قرآن حکیم

اس علم کي پیدائش نزول قرآن کے ساتھ ہوئي - نزول قرآن کا وقت قرات ميں کوئي اختلاف موجود نہيں تھا- يہ اختلاف راويوں کے اجتہاد کے سبب پيدا ہوا- امام باقر عليہ السلام فرماتے ہيں "القرآن واحد نزل من واحد ولکن الاختلاف يجي من قبل الرواة“ قرآن ايک ہے اور ايک خدا کي طرف سے ناز ل ہوا ہے ليکن اختلاف قرات، راويوں کي طرف سے ہے-

قرات قرآن ميں اختلاف کا بنيادي سبب صدر اسلام کے رسم الخط ميں نقطہ، حرکت، علامت اور شد و جزم کا نہ ہونا ہے- چونکہ اس زمانے ميں عربوں کے نزديک رسم الخط ابتدائي مرحلہ طے کر رہا تھا لہٰذا عرب خط کے فنون و رسوم سے آشنا نہ تھے-

اس بنياد پر اکثر اوقات ايک کلمہ اپنے اصلي تلفظ کے خلاف لکھا جاتا تھا اور تمام حروف نقطوں کے بغير لکھے جاتے تھے مثلا سين اور شين کے درميان کتابت ميں فرق نہيں ہوتا تھا لہٰذا يہ پڑھنے والے پر موقوف تھا کہ وہ شواہد کي بنا پر تشخيص دے کہ يہ حر ف سين ہے يا شين، تاء ہے يا ثاء- علاوہ از اين قرآن مجيد کے کلمات حرکات سے خالي تھے-

ان حروف پر کوئي علامت نہيں لکھي جاتي تھي لہٰذا قاري کلمہ کے وزن اور حرکت کے بارے ميں مشکل ميں پڑجاتے تھے مثلا قاري نہيں جانتا تھا کہ کلمہ "اعلم “ فعل امر ہے يا فعل مضارع متکلم کا صيغہ ہے اس اختلاف کي ايک وجہ يہ بھي تھي کہ عربي رسم الخط سرياني زبان سے ليا گيا تھا- اور سرياني زبان ميں کلمہ کے درميان الف نہيں ہوتا اسي لئے کوفي رسم الخط مين کلمات کے درميان الف ممدودہ نہيں لکھتے تھے- ان کے علاوہ ايک اور سبب عرب قبائل کے درميان لہجہ کا اختلاف تھا مثلا عرب قبائل ميں سے بعض نسب العين کو نون کي فتح کے ساتھ اور بعض نون کے کسرہ کے ساتھ تلاوت کرتے تھے- اس بنا پر مختلف شہروں ميں قرائت قرآن ميں اختلاف ايک فطري امر تھا - پھر اسلامي مملکت کي سرحديں بڑھتي چلي گئيں- اسلامي فتوحات کے دوران اسلامي مراکز ميں سے ہر ايک نے کسي ايک مورد اعتماد قاري کي قرائت کو قبول کرليا - نتيجہ کے طور پر پچاس سے زيادہ قرئتيں وجود ميں آگئيں- جن ميں سے بعد ميں سات معروف ہوگئيں-

سب سے پہلے جس شخص نے علم قرائت پرکتاب لکھي امام سجاد عليہ السلام کے شاگرد ابان بن تغلب تھے- پھر تيسري صدي ہجري ميں ابوبکر بن احمد مجاہد نے بغداد ميں قيام کيا اور علم قرائت کے تمام علماء، مکہ، کوفہ، بصرہ و شام سے ان سات قاريوں کا انتخاب کيا-

جو قراء سبعہ کے نام سے مشہور ہيں- البتہ واضح رہے کہ قرآن مجيد ميں مادہ الفاظ کے لحاظ سے تواتر ثابت ہے- اور قرآن کے الفاظ و کلمات ميں تمام دنيا کے مسلمانوں کا اتفاق نظر ہے- اختلاف فقط بعض کلمات کي تلاوت کے طريقوں کے بارے ميں ہے کہ يہ اختلاف بہت جزئي ہے اور اس سے ايات قرآن کے اصل معني پر لطمہ وارد نہيں ہوتا - يہاں پر ايک وضاحت ضروري ہے کہ قرائت قرآن کي اکثر کتابوں ميں حديث "ان القرآن نزل علي سبعة احرف“ سے استنباط کيا گيا ہے کہ قرآن انھيں سات قرائتوں ميں ناز ل ہوا ہے- حالانکہ يہ بات شيعہ نقطہ نظر سے باطل ہے اور ائمہ معصومين (ع) نے اس کي صريحا نفي کي ہے فضيل بن يسا سے روايت ہے "قلت لابي عبد اللہ ان الناس يقولون ان القرآن نزل علي سبعة احرف ، فقال کذبوا اعداء اللہ ولکنہ نزل علي احرف واحد من عند اللہ الواحد“

راوي کہتا ہے کہ ميں نے حضرت ابوعبداللہ سے عرض کيالوگ کہتے ہيں کہ قرآن ساتھ حرفوں (قرائتوں) پر نازل ہوا ؟ آپ نے فرمايا : دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہيں بلکہ قرآن ايک حرف (قرات ) پر ايک خدا کي طرف سے نازل ہوا ہے- يہ روايت شيعہ و سني کتب ميں نقل ہوئي ہے - شيعہ محققين کے نزديک قطع ضعف اسناد کے يہ روايت قراء سبعہ سے کوئي ارتباط نہيں رکھتي- اس حديث کي تشريح ميں معروف قول يہ ہے کہ احرف سے مراد مطون قرآن ہيں - يعني قرآن ايسي کتاب ہے کہ اس سے متعدد معاني سمجھے جا سکتے ہيں -

ايک معني ظاہري ہے اور دوسرے معاني مخفي ہيں- پھر آيت متعدد معاني اپنے اندر رکھتي ہے- اگرچہ عام لوگوں پر يہ پوشيدہ ہيں- ليکن امام معصوم ان معاني سے آگاہ ہوتا ہے- ليکن بعض علماء کے نزديک اس حديث ميں حرف سے مراد لہجہ ہے نہ قرات - پيغمبر اکرم کے زمانہ ميںعرب قرآن کي تلاوت مختلف لہجوں ميں کرتے تھے- ہر قبيلہ اپنے لہجہ ميں قرآن کي تلاوت کرتا تھا - پيغمبر نے اس طرح سب کي تصديق فرمائي ہے اس حديث ميں سبعہ کنائي عدد ہے- البتہ ائمہ معصومين نے فراوان حديثوں ميں لوگوں کو حکم ديا ہے کہ قرآن کي خالص عربي کي صورت ميں تلاوت کريں- نيز انھيں متداول قرائتوں کي پيروي کرنے کي وصيت فرمائي ہے- امام صادق (ع) سے حديث نقل ہوئي ہے فرماتے ہيں کہ "اقرء کما يقرء الناس“ يعني عمومي اور متداول قرائت کي پيروي کرو- شيعہ علماء کے فتاويٰ کے مطابق نمازميں انھيں سات قرات ميں سے کسي ايک کے مطابق ہوني چاہئے-

اس وقت تمام مصاحف قرآن جس قرآت پر توفق کرتے ہيں- اور ثبت ہوئے ہيں وہ عاصم کي قرات ہے کہ ابوعمر حفص نے اس کو عاصم سے روايت کيا ہے يہ قرات در اصل اميرالمومنين عليہ عليہ السلام کي قرآت ہے، چونکہ عاصم نے قرات ابوعبداللہ الرحمٰن سلمي سے ياد کي ہے- جو کہ حضرت امير المومنين عليہ السلام کے شاگرد اور ان کي قرات کو مشکل کرنے والے ہيں- پس عاصم امير المومنين کي قرات کا راوي ہے اسي وجہ سے عاصم کي قرات صحيح ترين اور اصيل ہے- حفص عاصم سے نقل کرتا ہے کہ عاصم نے کہا جو کچھ قرات ميں سے ميں نے تجھے پڑھايا ہے يہ وہي ہے جو ميں نے ابوعبدالرحمٰن سلمي سے حاصل کيا ہے اور اس نے اس کو حضرت علي اين ابي طالب عليہ السلام سے حاصل کيا ہے-

شعبہ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

حيات پيغمبر ہي ميں قرآن کے مرتب ہونے پر قرآني دلائل