• صارفین کی تعداد :
  • 1515
  • 12/1/2012
  • تاريخ :

سيمين دانشور اور ان کي کہانياں

سیمین دانشور

سيمين دانشور کا نام پڑھنے والوں کے ليے نامانوس نہيں- يہاں ان کي چار منتخب کہانياں پيش کي جا رہي ہيں جو ايراني معاشرے، خصوصاً اس ميں عورتوں کي صورت حال، کے مختلف پہلوں کو بڑي عمدگي سے ظاہر کرتي ہيں- سيمين دانشور شيراز ميں 1921ء ميں پيدا ہوئيں- انھوں نے ١٩٤١ء ميں صحافت اور ادب کے ميدان ميں قدم رکھا اور  ١٩٤٨ء ميں ان کي کہانيوں کا پہلا مجموعہ ”‌آتشِ خاموش “ شائع ہوا جو کسي ايراني خاتون افسانہ نگار کا پہلا مجموعہ تھا- ١٩٦١ء ميں ان کا دوسرا مجموعہ ”‌شہري چون بہشت“ (بہشت جيسا شہر) ، ١٩٨٠ء ميں تيسرا مجموعہ”‌بہ کي سلام کنم“ (کسے سلام کروں) اور ابھي چند سال پہلے تازہ ترين مجموعہ ”‌از پرندہ ہاي مہاجر بپرس“ (مہاجر پرندوں سے پوچھو) شائع ہوا ہے- ليکن 1969ء ميں ان کے پہلے ناول ”‌سووشون“ (سياوش کے سوگوار) کي اشاعت نے انھيں جديد فارسي فکشن کے بلندترين مقام پر پہنچا ديا- ان کا دوسرا ناول ”‌جزيرہ ي سرگرداني“ ١٩٩٣ء ميں شائع ہوا- سيمين دانشور کي ايک اور تصنيف ”‌غروبِ جلال“ ہے جو ان کے شوہر اور فارسي کے ممتازترين اديبوں ميں سے ايک، جلال آلِ احمد، کي يادوں اور ان کي موت کے حالات کے بارے ميں ہے- اس وقت سيمين دانشور تہران يونيورسٹي سے منسلک ہيں اور ايران کي محترم ترين شخصيات ميں شمار ہوتي ہيں-

آئنده ميں سيمين دانشور کي جو کہانياں پيش کي جائيں گي  ان کے فارسي عنوانات يہ ہيں: ”‌بي بي شہربانو“، ”‌شہري چون بہشت “، ”‌بہ کي سلام کنم“، اور ”‌زايمان“-

بي بي شہربانو

انھوں نے بڑي مشکلوں سے اماں کو تو سوار کرا ديا ليکن جب اوپر آئے تو تينوں ميں سے کسي کے بيٹھنے کے ليے جگہ نہ تھي- ابھي ان کے پيچھے اور بھي مسافر ’يا علي‘ کہتے ہوے چڑھے چلے آتے تھے- بدن کے پسينے کي بو ڈيزل کي بو ميں گھلي ہوئي تھي- ڈرائيور کے بائيں طرف ايک فوجي بيٹھا تھا- وہ خود کو اپني ٹوپي سے ہوا جھل رہا تھا- اس کے داہنے ہاتھ پر بھي ايک بڑے سے پيپے پر ايک نوجوان بيٹھا تھا-مريم نے بس کے مسافروں پر نظر ڈالي جن ميں زيادہ تر عورتيں تھيں جو اپنے ہاتھوں ميں پنکھے ليے بيٹھي تھيں- ليکن ان ميں سے کسي نے ذرا سا سرک کر مريم کي اماں تک کو جگہ نہ دي- وہ سوچنے لگي، ”‌اتنا بھي نہيں ديکھتيں کہ يہ معذور ہيں؟“پھر اس نے اماں کي طرف ديکھا جو اپني کھلي ہوئي بے نور آنکھوں سے تکتي، خاموش کھڑي تھيں، جيسے مسافروں کي بھنبھناہٹ پر کان لگائے ہوں- وہ تينوں بس کے بيچوں بيچ حيران کھڑے تھے اور کسي سے نظر ملانے کي جرات نہ کر پا رہے تھے، کہ ڈرائيور کے شاگرد نے آواز لگائي، ”‌آگے بڑھو، آگے!“مريم نے اماں کا ہاتھ پکڑ ليا اور انھيں بس کے پچھلے حصے کي طرف کھينچنے لگي- يکايک اس نے اِدھر اُدھر ديکھا تو اسے اپنا بھائي دکھائي نہ ديا-مگر جب اسے پيپے پر نوجوان کے ساتھ بيٹھے ديکھا تو حيرت ميں پڑ گئي-افسوس، يہ نہ ہوسکتا تھا کہ اماں کو پيپے پر بٹھا ديتي-

جاری ہے

ترجمہ: اجمل کمال اور وفا يزدان منش

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

مثنوي کے مطالعے کے مقاصد