• صارفین کی تعداد :
  • 2591
  • 11/11/2012
  • تاريخ :

يہ نہ تھي ہماري قسمت کہ وصال يار ہوتا

اگر اور جيتے رہتے يہي انتظار ہوتا

مرزا غالب

دوست غم خواري ميں ميري سعي فرمائيں گے کيا/ زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائيں گے کيا

شب خمارِ  شوق ساقي رست خيز انداز تھا/ تامحيط بادہ صورت خانۂ خميازہ تھا

بسکہ دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا/ آدمي کو بھي ميسر نہيں انساں ہونا

سراپا رہن عشق و ناگزير الفت ہستي/ عبادت برق کي کرتا ہوں اور افسوس حاصل کيا

يعني مرجانا ہي بہتر ہوا -

ترے وعدہ پہ جيے ہم تو يہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشي سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

يعني ہم نے جو يہ کہا کہ فقط وعدہ وصل سن کے ہم مرنے سے بچ گئے تو ہم نے جھوٹ جانا دوسرا احتمال يہ ہے کہ تيرا وعدہ سن کر جو ہم جيے تو اس کا يہ سبب تھا کہ ہم نے اُسے جھوٹا وعدہ خيال کيا اور جان منادي ہے -

تري نازکي سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھي تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

’ جانا ‘ کا فاعل ’ ہم نے ‘ محذوف ہے اور نازکي بمعني نزاکت -

کوئي ميرے دل سے پوچھے ترے تير نيم کش کو

يہ خلش کہاں سے ہوتي جو جگر کے پار ہوتا

’ جو ‘ کا واۆ وزن سے ساقط ہو گيا اور يہ درست ہے بلکہ فصيح ہے ليکن اُس کے ساقط ہو جانے سے دو جس ميں پيدا ہو گئيں اور عيب تنافر پيدا ہو گيا ليکن خوبي مضمون کہ ايسي باتوں کا کوئي خيال نہيں کرتا - تير نيم کش وہ جسے چھوڑتے وقت کمان دار نے کمان کو پورا نہ کھينچا ہو اور اسي سبب سے وہ پار نہ ہوسکا -

يہ کہاں کي دوستي ہے کہ بنے ہيں دوست ناصح

کوئي چارہ ساز ہوتا کوئي غم گسار ہوتا

دوستوں کي شکايت ہے کہ اُنھوں نے نصيحت پر کيوں کمر باندھي ہے -

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو يہ اگر شرار ہوتا

يعني جس طرح دل ميں غم چھپا ہوا ہے اگر اسي طرح شرار بن کر پتھر ميں يہ پوشيدہ ہوتا تو اُس ميں سے بھي لہو ٹپکتا ، حاصل يہ کہ غم کا اثر يہ ہے کہ دل و جگر لہو کر ديتا ہے ، پتھر کا جگر بھي ہو تو وہ بھي لہو ہو جائے -

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچيں کہ دل ہے

غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا

’ پہ ‘ بمعني مگر اور ان معني ميں ’ پر ‘ فصيح ہے اور آخر مصرعہ ميں ’ ہے ‘ تامہ ہے اور پہلا ’ ہے ‘ ناقصہ ہے -

کہوں کس سے ميں کہ کيا ہے شبِ غم بري بلا ہے

مجھے کيا برا تھا مرنا اگر ايک بار ہوتا

’ کيا ہے ‘ ميں ضمير مستقر ہے مرجع اس کا شبِ غم ہے جو دوسرے جملہ ميں ہے کہ اگر اس شعر ميں اضمار قبل الذکر اور ضمير کو ستتر نہ ليں بلکہ ’ ہے ‘ کا فاعل شبِ غم کو کہيں تو لطف سجع جاتا ہے تاہم خوبي اس شعر کي حدِ تحسين سے باہر ہے -

ہوئے مرکے ہم جو رُسوا ہوئے کيوں نہ غرقِ  دريا

نہ کبھي جنازہ اُٹھتا نہ کہيں مزار ہوتا

يعني جنازہ اُٹھنے اور مزار بننے نے رُسوا کيا ڈوب مرتے تو اچھے رہتے -

اُسے کون ديکھ سکتا کہ يگانہ ہے وہ يکتا

جو دوئي کي بو بھي ہوتي تو کہيں وہ چار ہوتا

دو چار ہونے سے دکھائي دينا مراد ہے -

يہ مسائل تصوف يہ ترا بيان غالب

تجھے ہم ولي سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

اس مقطع کي شرح لکھنا ضرور نہيں بہت صاف ہے ليکن يہاں يہ نکتہ ضرور سمجھنا چاہئے کہ خبر سے انشاء ميں زيادہ مزہ ہوتا ہے پہلا مصرع اگر اس طرح ہوتا کہ غالب تيري زبان سے اسرارِ تصوف نکلتے ہيں الخ تو يہ شعر جملہ خبريہ ہوتا ، مصنف کي شوقي طبع نے خبر کے پہلو کو چھوڑکر اسي مضمون کو تعجب کے پيرائے ميں ادا کيا اور اب يہ شعر سارا جملہ انشائيہ ہے -

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان