• صارفین کی تعداد :
  • 1122
  • 10/29/2012
  • تاريخ :

حج بيت اللہ (1433) کے موقع پر امام خامنہ اي کا پيغام

حج بیت اللہ (1433)

کون يقين کرسکتا ہے کہ مصر، تيونس اور ليبيا ميں سياہ آمريتوں کي حمايت کرنے والي حکومتيں اب شامي عوام کي جمہوريت پسندي کي حامي بن چکي ہيں؟ شام کا ماجرا، ايک ايسي حکومت سے انتقام کا ماجرا ہے جو تين عشروں سے تن تنہا غاصب صہيونيوں کے مقابلے ميں ڈٹي ہوئي ہے اور صہيوني يلغار کے مقابلے ميں فلسطين اور لبنان کي مزاحمت کرنے والي جماعتوں کا دفاع کرتي آئي ہے-

 حضرت آيت اللہ العظمي امام سيد علي خامنہ اي ـ ادامَ اللہُ ظِلَّہُ العالي ـ نے حج بيت اللہ ميں شريک مسلمانوں  کے نام اہم پيغام جاري کيا ہے- اہل البيت (ع) نيوز ايجنسي ـ ابنا ـ کي رپورٹ کے مطابق حضرت آيت اللہ العظمي امام سيد علي خامنہ اي ـ ادامَ اللہُ ظِلَّہُ العالي ـ نے حج بيت اللہ ميں شريک مسلمانوں  کے نام اہم پيغام جاري کيا جس کا متن عرفات کے ميدان ميں برائت از مشرکين کے اجتماع کے موقع پر آپ کے نمائندے نے پڑھ کر سنايا- پيغام کا متن درج ذيل ہے:

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

الحمد للّه ربّ العالمين و صلوات اللّه و سلامه على الرّسول الأعظم الأمين و على آله المطهّرين المنتجبين و صحبه الميامين-

موسم حج، رحمت و برکت سے سرشار ہوکر آن پہنچا اور ايک بار پھر ان سعادتمندوں اور خوش بخت انسانوں کو فيض الہي سے بہرہ مند کيا جن کو اس نوراني وعدہ گاہ ميں شرف حضور نصيب ہوا ہے- يہاں ہر لمحہ اور ہر جگہ ہر حج گزار کو معني اور مادي ارتقاء کي دعوت ديتي ہے- يہاں مسلمان مرد و زن خدائے بزرگ کي طرف سے صلاح و فلاح کي دعوت پر دل و زبان سے لبيک کہتے ہيں يہاں سب کو برادري، ہمرنگي اور پرہيزگاري کي مشق کرنے کي فرصت ملتي ہے-

 يہاں تربيت و تعليم کي اردوگاہ (Camp). ہے؛ امت اسلامي کي وحدت و عظمت و تنوع اور رنگارنگي کي نمائش گاہ ہے؛  شيطان اور طاغوت کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کا اکھاڑا ہے- اس مقام کو خدائے حکيم م قدير نے ايک ايسا ٹھکانا قرار ديا ہے جہاں :مۆمنين اپنے فوائد کا مشاہدہ کريں گے"- (1) جس وقت ہم عقل و عبرت آموزي کي آنکھ کھوليں گے يہ آسماني وعدہ ہماري ذاتي اور معاشرتي زندگي کي پوري وسعتوں پر چھا جائے گا- حج کے شعائر اور نشانيوں کي خصوصيت دنيا اور آخرت کي آميزش اور فرد و معاشرے کے اختلاط سے عبارت ہے-

شاندار اور سادہ کعبہ، ايک استوار اور ابدي محور کے گرد جسموں اور دلوں کا طواف، ايک مبدء و منتہا اور آغاز و انجام کے درميان مسلسل اور منظم سعي و کوشش؛ ميدان عرفات اور مشعر کے حشر ساماں ميدانوں کي طرف اجتماعي کوچ اور وہ کيفيت و حضور جو اس عظيم محشر ميں دلوں کو خلوص و طراوت عطا کرتا ہے؛ شيطان کي علامتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اجتماعي اور ہمگاني يلغار، ہر مقام سے، ہر رنگ و نسل سے اور ہر بو سے، ان تمام راز و رمز سے بھرپور اور معاني اور ہدايت کي علامتوں سے لبريز مراسمات ميں ... اس پر معني اور پر مضمون فريضے کي منفرد خصوصيات ہيں-

 اس طرح کے مراسمات جو دلوں کو خدا سے متصل کرديتے ہيں اور انسان کے دل کي خلوتوں کو تقوي اور ايمان کے نور سے روشن کرديتے ہيں، اور فرد کو خودي کے حصار سے نکال لاتے ہيں اور امت کے متنوع مجموعے ميں ضم کرديتے ہيں؛ ايک طرف سے اس کو پرہيزگاري کا لباس پہنا ديتے ہيں جو کہ گناہ کے زہرآلود تيروں سے اس کي جان کي حفاظت کرتا ہے، اور دوسري طرف سے شيطانوں اور طاغوتوں پر حملہ کرنے کا جذبہ اس ميں ابھار ديتے ہيں-

يہيں سے حج گزار، امت اسلامي کي حدود کي وسعتوں کا ايک نمونہ بھي اپني آنکھوں سے ديکھ ليتا ہے اور اس کي قابليت و صلاحيت کا ادراک بھي کرليتا ہے اور مستقبل سے اپني اميد بھي وابستہ کرديتا ہے، اور مستقبل ميں کردار ادا کرنے کے لئے آمادگي بھي محسوس کرتا ہے، اور اگر اللہ کي توفيق اور امداد اس کے شامل حال ہوجائے تو پيغمبر عظيم الشان صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے تجديد بيعت بھي کرليتا ہے اور اسلام عزيز کے ساتھ مستحکم ميثاق بھي باندھ ليتا ہے اور اپنے ذات کي اصلاح اور امت کي اصلاح اور کلمۂ اسلام کي سربلندي کے لئے اپنے اندر عزم راسخ خلق کرديتا ہے- يہ دونوں ـ يعني ذات اور امت کي اصلاح ـ دو تعطيل ناپذير فريضے ہيں- ان فرائض کو نبھانے کا طريقہ کار ـ

ديني فرائض ميں غور و تدبر اور عقليت و بصيرت سے استفادہ لے کر ـ تدبر و تامل والوں کے لئے دشوار نہيں ہے- اپني ذات کي اصلاح شيطاني ہوي و ہوس کے خلاف جدوجہد اور گناہ سے اجتناب کي کوشش، سے شروع ہوتي ہے؛ اور امت کي اصلاح دشمن کو پہچاننے (دشمن شناسي) اور اس کے منصوبوں اور سازشوں کو پہچاننے اور دشمن کے واروں، مکاريوں اور عياريوں اور دشمنيوں کو بے اثر کرنے کے لئے مجاہدت سے انتظام پاتي ہے- زمانے کے اس مرحلے ميں، عالم اسلام کے اہم ترين مسائل ميں سے ايک ـ جو  مسلم امّہ کي تقدير سے جڑا ہوا ہے ـ شمالي افريقہ اور خطے ميں انقلابي واقعات سے تعلق رکھتا ہے جو اب تک کئي بدعنوان اور امريکہ کي مطيع اور صہيونيت کي حليف حکومتوں کے زوال پر منتج ہوئے ہيں اور اسي نوعيت کي دوسري حکومتوں پر لرزہ طاري کرچکے ہيں- اگر مسلمانان عالم اس عظيم موقع کو ضائع کريں اور اس سے امت اسلامي کي اصلاح کے لئے فائدہ نہ اٹھائيں، تو وہ نقصان عظيم سے دوچار ہوں گے- اس وقت جارح و متجاوز اور درانداز و ٹانگ اڑانے والا استکبار، ان عظيم اسلامي تحريکوں کو منحرف کرنے کے لئے سرگرم ہوچکا ہے- ان عظيم تحريکوں ميں مسلم مرد و زن ـ ملتوں کي تذليل و تحقير اور جرائم پيشہ صہيوني رياست کے ساتھ اتحاد و وابستگي کا سبب بننے والے ـ حکمرانوں کے استبداد و مطلق العنانيت اور امريکہ کے تسلط، کے خلاف اٹھے اور موت و حيات کي اس جدوجہد ميں اسلام اور اس کي نجات دہندہ تعليمات اور نصب العين کو اپني نجات کا اصل عامل قرار ديا اور ان کا بلند آواز سے اظہار کيا-

فلسطين کي مظلوم ملت کے دفاع اور غاصب رياست کے خلاف جدوجہد کو اپنے اہداف و مقاصد ميں سرفہرست قرار ديا؛ مسلم اقوام کي طرف دوستي کا ہاتھ پھيلايا اور امت اسلاميہ کے اتحاد کي درخواست کي- يہ ان ممالک ميں عوامي تحريکوں کے بنيادي اصول ہيں جنہوں نے گذشتہ دو برسوں سے آزادي اور اصلاح کا پرچم لہرايا اور جسم و جان لے کر انقلاب کے ميدانوں ميں حاضر ہوئے؛ اور يہي چيزيں ہيں جو عظيم اسلامي امت کے اصلاح کے بنيادي اصولوں کو استوار کرسکتي ہيں-

 اس بنيادي اصولوں پر استقامت، ان ممالک ميں عوامي تحريکوں کي حتمي کاميابي کے لئے شرط لازم ہے- دشمن ان ہي بنيادي اصولوں کو متزلزل کرنے کے درپے ہے- امريکہ، نيٹو اور صہيونيت کے بدعنوان اور بد اعمال پٹھو بعض غفلتوں اور سطحي سوچوں سے فائدہ اٹھا کر مسلم نوجوانوں کي طوفاني تحريکوں کو منحرف کرنے اور انہيں اسلام کے نام پر ايک دوسرے کے خلاف برسرپيکار کرنے کے درپے ہيں اور استعمار و صہيونيت کے خلاف شروع ہونے والے جہاد کو عالم اسلام ميں اندھي دہشت گردي ميں تبديل کرنا چاہتے ہيں تا کہ مسلمانوں کا خون مسلمانوں کے ہاتھوں، بہائيں تا کہ اسلام کے دشمن کو درپيش بندگليوں سے چھٹکارا ملے اور اسلام اور اس کے مجاہدين بدنام کريں اور ان کا چہرہ بھيانک کرکے دنياوالوں کے سامنے پيش کريں- انھوں نے ـ اسلام اور اسلامي نصب العين کو منظر عام سے ہٹانے سے نااميد ہونے کے بعد ـ اب اسلامي مکاتب اور فرقوں کو درميان فتنہ انگيزي کا سہارا ليا ہے اور شيعہ فوبيا اور سني فوبيا کي سازش کے تحت امت اسلامي امت کے اتحاد کے راستے ميں رکاوٹيں کھڑي کر رہے ہيں- وہ خطے ميں اپنے کٹھ پتليوں کے ذريعے شام ميں بحران آفريني کررہے ہيں تا کہ ملتوں کي توجہ کو ان کے ممالک کے بنيادي مسائل اور ان کو درپيش خطروں اور چيلنجوں سے منحرف کريں؛ اور ايک خوني واقعے کي طرف مبذول کرانا چاہتے ہيں جس کے باني و باعث وہ خود ہيں- شام ميں خانہ جنگي اور مسلم نوجوانوں کو ـ ايک دوسرے کے ہاتھوں ـ

قتل عام کرنا ايک ايسا جرم ہے جس کا آغاز امريکہ اور صہيوني رياست اور ان کي پيروي کرنے والي حکومتوں نے کيا ہے اور وہي اس آگ کو ہوا دے رہي ہيں-

کون يقين کرسکتا ہے کہ مصر، تيونس اور ليبيا ميں سياہ آمريتوں کي حمايت کرنے والي حکومتيں اب شامي عوام کي جمہوريت پسندي کي حامي بن چکي ہيں؟ شام کا ماجرا، ايک ايسي حکومت سے انتقام کا ماجرا ہے جو تين عشروں سے تن تنہا غاصب صہيونيوں کے مقابلے ميں ڈٹي ہوئي ہے اور صہيوني يلغار کے مقابلے ميں فلسطين اور لبنان کي مزاحمت کرنے والي جماعتوں کا دفاع کرتي آئي ہے- ہم

شامي قوم کے حامي اور اس ملک ميں ہر قسم کي بيروني اشتعال انگيزي اور مداخلت کے خلاف ہيں-

اس ملک ميں ہر قسم کي اصلاح ملت شام کے اپنے ہاتھوں اور مکمل طور پر قومي روشوں سے ہوني چاہئے- يہ کہ بين الاقوامي تسلط پسند قوتيں اور ان کے فرمان پر کان لگائے علاقائي حکومتيں، کسي ملک ميں کسي بہانے بحران کھڑا کريں اور پھر اسي بحران کو دستاويز بنا کر اس ملک ميں ہر قسم کے انسانيت سوز مظالم کے مجاز قرار ديں، يہ ايک نہايت سنجيدہ خطرہ ہے کہ اگر علاقے کي حکومتيں اس خطرے کو ٹالنے کا اہتمام نہ کريں، تو انہيں اس استکباري حيلے کے تسلسل ميں اپني باري کا انتظار کرنا پڑے گا- بھائيو اور بہنو! موسم حج، عالم اسلام کے اہم قضايا (Theorems) ميں غور و تامل اور تدبر کا موقع ہے-

علاقے کے انقلابات کا انجام اور زخم خوردہ قوتوں کي جانب سے ان انقلابات کو منحرف کرنے کي کوششيں، ان ہي قضايا ميں سے ہيں-

 مسلمانوں کو درميان اختلاف اور انتشار پھيلانے کي خائنانہ سازشيں اور قيام کرنے والے ممالک ميں اسلامي جمہوريہ ايران اور مسئلۂ فلسطين کے سلسلے ميں بدگمانياں پھيلانے اور مجاہدين کو تنہا کرنے اور فلسطيني جہاد کو خاموش کرنے کي کوشش، مغربي حکومتوں کي جانب سے اسلام مخالف تشہيري مہم اور رسول اللہ الاعظم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کي توہين کرنے والے عناصر کي حمايت، مسلم ممالک ميں خانہ جنگيوں کا اہتمام کرنا اور بعض اسلامي ممالک کو تقسيم کرنا، انقلابي حکومتوں اور قوموں کو مغرب کي تسلط پسند قوتوں سے ٹکر لينے سے خوفزدہ کرنا اور ان ميں اس توہم کو فروغ دينا کہ "ان کے مستقبل کا دار و مدار جارح و متجاوز قوتوں کے سامنے ہتھيار ڈال کر سرتسليم خم کرنے، پر ہے ... اور اس قسم کے دوسرے اہم اور حياتي مسائل ان اہم مسائل اور قضايا ميں سے ہيں جن پر حج کے موقع پر آپ حج گزاروں کو اتحاد اور يکدلي اور اتحاد و ہم فکري کے سائے ميں غور و تدبر کرنا چاہئے- بے شک اللہ کي ہدايت و امداد، امن و سلامتي کے راستے کوشش کرنے والے مۆمنين کو دکھا دے گي:"وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا..." (2)

والسّلام عليكم و رحمة اللّه

سيّد على خامنه‌اى‌30 مهر 1391مصادف باپنجم ذى‌الحجه 1433

حوالہ جات:

1- اشارہ ہے سورہ حج کي آيت 27 کي طرف جہاں ارشاد ہوتا ہے: لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ --- تا کہ وہ اپنے فوائد کا مشاہدہ کريں اور معينہ ايام ميں اللہ کو ياد کريں

 2. سورہ عنکبوت آيت 69- اور جو لوگ ہمارے راستے ميں جہاد (اور کوشش) کرتے ہيں تو ہم يقيناً انہيں اپني راہيں دکھا ديتے ہيں-