• صارفین کی تعداد :
  • 6924
  • 10/13/2012
  • تاريخ :

مولد و ولادت خواجہ نصير الدين طوسي

خواجہ نصیر الدین طوسی

 مولد- طوس- ايک سے ايک نامي گراں علماء دانش مند و بزرگ ہستيوں کي سرزمين ہے جس ميں کا ہر ايراني ادب، رياضي، تاريخ، علم،تمدن و تہذيب، ثقافت ميں اپني ايک چمکدار تاريخ رکھتا ہے-

ماضي ميں اسي خاک سے تاريخ ساز اور حکمت و فلسفہ و عملي دنيا کے قد آور افراد جيسے ’’جابر بن حيان ‘‘ امام محمد غزالي، حکيم ابو القاسم فردوسي خواجہ نظام الدين الملک و خواجہ نصير الدين طوسي وغيرہ اٹھے ہيں-

طوس خراسان کے مضافات ميں ہے ج س کا اہم شہر مشہد ہے- زمانہ قديم ميں طوس کئي شہروں کا مجموعہ تھا جن کے نام نوفان، طابران، رادکان ہيں ان ميں اہم شہر طابران (شہر طوس) رہا ہے- مگر آج کل طابران جو مشہد سے چار فرسخ کي دوسري پر تھا بالکل مٹ گيا ہے چند شکستہ برجيوں کے کچھ نہيں رہ گيا ہے-

’’نوقان‘‘ شہر طابران سے کچھ چھوٹا تھا- شيعوں کے آٹھويں امام حضرت علي بن موسيٰ الرضاط“ کي قبر اس شہر سے باہر سناباد گاۆں(موجودہ مشہد) ميں ہے- جب امام رضا عليہ السلام کے مشہد ميں توسي ہوئي تو وہ سناباد گاۆں سے متصل ہو گيا-اور مشہد کا ايک محلہ بن گيا سو آج بھي نوقان کا نام محلہ باقي ہے-(طوس کي توصيف ميں خواجہ نصير کے ايک معاصر شاعر نے کہا جو حسب ذيل اشعار ہيں )

جبذآب و خاک جلگہ طوس

کہ شد آرامگہ فضل و ہنر

معدن و منبع حقيقت وفضل

مرتع و مربع صفا و نظر

آب اوچون سپہر مہر نماي

خاک اوچون صد ف گہر پرور

ہمچوعہ غزالي و نظام الملک

ہمچوفردوسي و ابو جعفر

وندرين روزگارخواجہ نصير

اعلم عصر مو مقتداي بشر

کزا فاضل زمبداء فطرت

تاباکنون چوا اونخواست ديگر

اين خپين بقعہ باخپين فضلا

سزدار برفلک برارد سر

ولادت  

تقريباً آٹھ سو سال پہلے ’’جہرود‘‘ قم ايک روحاني و عالم کنبہ آٹھويں امام حضرت علي رضا عليہ السلام کي زيارت کے لئے مشہد کا قصد کرتا ہے اور واپسي کے وقت اسے خاندان کے بزرگ عالم کي مادر گرامي کي بيماري کے سبب سے شہر طوس کے ايک محلہ ميں ٹھہرنا پڑتا ہے تھوڑے دن کے بعد اس عالم روحاني کے اخلاق و سيرت پسنديدہ کو ديکھ کر عوام گرويدہ ہو جاتے ہيں- اور اس عالم جليل القدر سے درخواست کرتے ہيں کہ يہ امامت جماعت مسجد کي اور تدريس مدرسہ علميہ محلہ حسينيہ طوس کو کر ليں اور يہيں قيام فرما ہو جائيں-

اس بزرگ روحاني کا نام شيخ وجيہ الدين محمد بن حسن تھا آپ کو بزرگان دين سے اجازہ روايت حاصل تھي اور ايک اہم سبب تھا کہ لوگ ان کي طرف متوجہ ہو گئے-

شيخ وجيہ الدين کے ايک فرزند تھے جن کا نام صادق تھا اور ايک صاحبزادي تھي جن کا نام صديقہ تھا مگر انہيں ايک اور اولاد نرينہ کا انتظار تھا کيونکہ شيخ کا دل بہت چاہتا تھا کہ ان کے يہاں ايک ايسا فرزند پيدا ہوا جو مشہور علمي گھرانے معروف بہ ’’فيروزشاہ جہرودي‘‘ کا نام روشن کرے اور اسے باقي رکھے- کيونکہ ان کے بڑے بيٹے صادق نے درس و تحصيل علم ميں دل چسپي ظاہر نہيں کي چنانچہ يہ انتظار زيادہ طولاني نہيں ہوا تھا کہ ايک رات جب شيخ مسجد سے گھر آئے تو انھيں دوسرے بيٹے کي ولادت کي خوش خبري مل گئي ہوا يہ کہ اس رات شيخ بہت مضطرب تھے کہ خدانخواستہ ان کي اہليہ کو کوئي آزار و ناگواري درپيش نہ ہو جائے اس لئے انہوں نے دعا و مناجات کے بعد قران کريم سے فال نکالي تو يہ آيت مبارکہ نکلي ’’محمد رسول اللہ والذين معہ اشداء علي الکفار رحماء بينہم ‘‘ شيخ وجيہ الدين نے قرآن کريم کي اس آيت کو فال نيک خيال کيا اور مولود جس کے بارے معلوم نہ تھا کہ لڑکي ہے يا لڑکا ’’محمد ‘‘ نام رکھ ديا جب کہ خود ان کا نام بھي محمد تھا-

ابھي آفتاب نے سر زمين ايران کو روشن نہيں کيا کہ شيخ کے گھر کے سورج نے بارش انوار کر دي يعني روز شنبہ 11/جمادي الثاني 597ھ کو بوقت طلوع آفتاب ساتويں صدي کي حکمت و رياضي کا منور ترين چراغ سر زمين طوس پر جلوہ گر ہو گيا- جواس صدي کے ايراني دانش مندوں و فلاسفہ و سياست مداروں ميں ممتاز ہوا اور سارے عالم ميں اس کي شہرت ہوئي-

اس کا نام ’’محمد ‘‘ کنيت ’’ابو جعفر ‘‘ لقب ’’نصير الدين‘‘ محقق طوسي، استاد البشر تھا اور مشہور خواجہ سے ہوا-(ايران ميں خواجہ کہتے تھے دانش مند بزرگ، سرور و مالدار کو جيسے خواجہ حافظ شيرازي، خواجہ عبداللہ انصاري، خواجہ نظام الملک)

مرحوم شيخ عباس قمي ’’محدث قمي‘‘ خواجہ نصير کے بارے ميں کتاب مفاتيح الجنان ميں لکھتے ہيں:

’’نصير الملتہ والدين، سلطان الحکماء و المتکلين، فخرالشيعہ و حجتہ الفرخہ الناجيہ استاد البشر و العقل الحادي عشر(تحفہ الاحباب، ص 485، محدث قمي)

اکثر مورخين کے مطابق خواجہ نصير کے اجداد جيسا کہ اشارہ کيا گيا ہے اہل جہرود  قم تھے اس طرح خواجہ نصير کي اصل ارض قم ہے ليکن چونکہ ان کي ولادت طوس ميں ہوئي اس لئے طوس کہلائے اور اسي نام سے شہرت حاصل کر لي-

محدث قمي کے مطابق خواجہ کے مورث اعليٰ جہرود (وشارہ کے نام ے مشہور جگہ )قم کے نزديک (فوائد الرضويہ، ص 603، محدث قمي) کے باشندے تھے- جہرود کا فاصلہ قم سے دس فرسخ ہے (25) ميل، وہ جگہ بہترين آب و ہوا والي ہے اور وہاں ايک قلعہ بھي موجود ہے جو قلعہ خواجہ نصير کے نام سے مشہور ہے-

شعبۂ  تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

قيصر امين پور کا انداز سخن