• صارفین کی تعداد :
  • 758
  • 9/29/2012
  • تاريخ :

سر سيّد اور گاۆں کي ياد

سر سیّد

بسم اللہ کي تقريب 

سر سيد کے بچپن کے حالات

دلي سے سات کوس مغل پور ايک جاٹوں کا گاوں ہے- وہاں سر سيد کے والد کي کچھ ملک بطور معافي کے تھي- اگر کبھي فصل کے موقع پر ان کے والد مغل پور جاتے تو ان کو بھي اکثر اپنے ساتھ لے جاتے اور ايک ايک ہفتہ گاوں ميں رہتے- سر سيد کہتے تھے کہ :

" اس عمر ميں گاوں جا کر رہنا ، جنگل ميں پھرنا ، عمدہ دودھ اور دہي اور تازہ تازہ گھي اور جاٹنيوں کے ہاتھ کي پکي ہوئي باجرے يا مکئي کي روٹياں کھانا نہايت ہي مزہ ديتا تھا-"

خلعت کا حصول : سر سيد کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ ميں ہر سال تاريخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تين رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخير ميں--- انہوں نے دربار کا جانا کم کر ديا تھا اور اپنا خلعت سر سيد کو ، باوجوديکہ ان کي عمر کم تھي ، دلوانا شروع کر ديا تھا- سر سيد کہتے تھے کہ:

" ايک بار خلعت ملنے کي تاريخ پر ايسا ہوا کہ والد بہت سويرے اُٹھ کر قلعہ چلے گئے اور ميں بہت دن چڑھے اُٹھا- ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھي دير ہو گئي- جب لال پردہ کے قريب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار ميں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہيں رہا تھا- داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ايک ہي دفعہ دربار ميں جانا- جب خلعت پہن کر ميں نے دربار ميں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اُٹھ کر ہوادار پر سوار ہو چکے تھے- بادشاہ نے مجھے ديکھ کر والد سے ، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہي تھے ، پوچھا کہ " تمہارا بيٹا ہے؟" انہوں نے کہا، "حضور کا خانہ زاد! " بادشاہ چپکے ہو رہے- لوگوں نے جانا بس اب محل ميں چلے جائيں گے ، مگر جب تسبيح خانہ ميں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے- تسبيح خانہ ميں بھي ايک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں کبھي کبھي دربار کيا کرتے تھے- اس چبوترہ پر بيٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتيِ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا- ميں بھي وہاں پہنچ گيا تھا- بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلايا اور کمال عنايت سے ميرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمايا کہ " دير کيوں کي؟" حاضرين نے کہا ، " عرض کرو کہ تقصير ہوئي " مگر ميں چپکا کھڑا رہا- جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو ميں نے عرض کيا کہ " سو گيا تھا! " بادشاہ مسکرائے اور فرمايا، " بہت سويرے اُٹھا کرو! " اور ہاتھ چھوڑ دئيے- لوگوں نے کہا،

" آداب بجا لاۆ! " ميں آداب بجا لايا- بادشاہ نے جواہرات کي معمولي رقميں اپنے ہاتھ سے پہنائيں- ميں نے نذر دي اور بادشاہ اُٹھ کر خاصي ڈيوڑھي سے محل ميں چلے گئے- تمام درباري ميرے والد کو بادشاہ کي اس عنايت پر مبارک سلامت کہنے لگے---- اس زمانہ ميں ميري عمر آٹھ نو برس کي ہو گي-"

راوي: الطاف حسين حالي

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان