• صارفین کی تعداد :
  • 4190
  • 9/25/2012
  • تاريخ :

عدل و انصاف کي دعوت

عدل و انصاف

عدل الہٰي کے دلائل

ہم نے کہا کہ انسان کي صفات ،خدا وند متعال کي صفات کا ايک پر تو ہو نا چاہئيں تا کہ انساني معاشرے ميں الہٰي صفات کا نور پھيلے - اسي اصول کي بنياد پر جس قدر قرآن مجيد عدل الہٰي کو بيان کر تا ہے ،اسي قدر انساني معاشرے اور ہر انسان ميں عدل و انصاف قائم کر نے پر اہميت ديتا ہے- قرآن مجيد بار بار ظلم کو معاشروں کي تباہي و بر بادي کا سبب بتاتا ہے اور ظالموں کے انجام کو درد ناک ترين انجام شمار کرتا ہے-

قرآن مجيد گزشتہ اقوام کي داستان بيان کر نے کے ضمن ميں باربار اس حقيقت کي ياد دہاني کرتا ہے کہ ديکھو ظلم وفساد کے نتيجہ ميں کس طرح وہ اقوام عذاب الہٰي سے دو چار ہو کر نابود ہوئے ،تم بھي اس سے ڈرو کہ کہيں ظلم کر نے کے نتيجہ ميں اس قسم کے انجام سے دوچار نہ ہو جاۆ-

قرآن مجيد واضح الفاظ ميں ايک بنيادي اصول کے عنوان سے کہتا ہے:

<اظنّ اللہ يامر بالعدل والاحسان و اظ•تياء ذي القربيٰ وينھي عن الفحشآء والمنکر والبغي> (سورہ نحل/90)

 ”‌بيشک اللہ عدل،احسان اور قرابت داروں کے حقوق کي ادائيگي کا حکم ديتا ہے اور بد کاري ،ناشائستہ حر کات اور ظلم سے منع کرتا ہے-“

قابل توجہ بات ہے کہ جس طرح ظلم کر نا ايک برا اور قبيح کام ہے ،اسي طرح ظلم کو بر داشت کر نا بھي اسلام اور قرآن کي نظر ميں غلط ہے،چنانچہ سورئہ بقرہ کي آيت نمبر 79 2 ميں آيا ہے:

”‌لا تظلمون ولا تظلمون > ( سورہ بقرہ/279)

”‌نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کيا جائے “

اصولي طور پر ظلم کو قبول کر نا ظلم کي حوصلہ افزائي ،اس کي تقويت اور ظالم کي مدد کر نے کا باعث ہے-

اقتباس از کتاب: نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مصنف: آيت اللہ ناصر مکارم شيرازي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان