• صارفین کی تعداد :
  • 3151
  • 9/3/2012
  • تاريخ :

بد طينت شخص کسى کے بارے ميں حسن ظن نھيں رکھتا کيونکہ وہ دوسروں کا قياس اپنى ذات پر کرتا ھے

بد گمانى

بد گمانى سے اسلام کا مقابلہ

بد گمانى کے نقصانات

زندگى کے روشن و تاريک پھلو

بعض عادتيں اس کى عمر کو کم کر ديتى ھيں مثلا ھر چيز پر تنقيد کى عادت ھر شئى سے بد گمانى کى عادت !

ڈاکٹر مارل اس سلسلہ ميں کھتا ھے :

( انسان کى ) بعض عادتيں اس کى عمر کو کم کر ديتى ھيں مثلا ھر چيز پر تنقيد کى عادت ھر شئى سے بد گمانى کى عادت ! ( عمر کو کم کر ديتى ھے ) کيونکہ يہ منفي نفسياتى عادت ،اعصاب اور داخلى غدود کو متاثر کر ديتى ھے - اور اس کا نتيجہ کبھى عملى اختلال کى صورت ميں اور کبھى جسمانى نقصان کى صورت ميں ظاھر ھوتا ھے -

ڈاکٹر ماردن کا کھنا ھے: بد گمانى صحت کو خراب کر ديتى ھے - پيدائشى قوتوں کو کمزور کر ديتى ھے اور ايک متوازن روح کسى برائى کا کبھى انتظار نھيں کرتى - مثلا ھميشہ اس کى يھى آرزو رھتى ھے کہ نيکيوں سے روبرو رھے کيونکہ اسے معلوم ھے نيکي ايک حقيقت ابدى ھے اور بد گمانى اچھى طاقتوں کے کمزور کر دينے کے سوا کچھ بھى نھيں ھے- جيسے تاريکى فى نفسہ کوئى مستقل چيز نھيں ھے بلکہ عدم نور کا نام تاريکى ھے - لھذا نور کى تلاش ميں دوڑ و ! نور دل سے تاريکى کو ختم کر ديتا ھے

بد گمان شخص لوگوں سے وحشت کرتا ھے جيسا کہ حضرت على عليہ السلام نے فرمايا : جو حسن ظن نھيں رکھتا وہ ھر ايک سے وحشت کرتا ھے -

ڈاکٹر فارمر کھتا ھے : جس مجلس ميں ھر شخص اپنى راى اور اپنے نظر يہ کو بيان کر رھا ھو اس ميں اگر کوئى شخص صريحى طور سے اپنى فکر و نظر کے اظھار سے ڈرتا ھو اور جو شخص وسيع و چوڑى سڑکوں کو چھوڑ کر تنگ و تاريک گليوں ميں اس خوف سے راستہ چلتا ھو کہ کھيں چوڑى سڑکوں پر يا عمومى تفريح گاھوں ميں اپنے کسى رشتہ دار سے ملاقات نہ ھو جائے، يہ سب لوگ يا تو واھمہ کے شکار ھيں يا پھر ان کى روح پر بد گمانى مسلط ھے -

بد گمانى کى علتوں ميں سے ايک علت ماضى کى تلخ ياديں بھى ھيں جو انسان کے اندر چھپى ھوتي ھيں اور انسان کو بد گمانى پر آمادہ کرتى ھيں - ايک اردو کا شاعر کھتا ھے

يادِ ماضى عذاب ھے يا رب چھين لے مجھ سے حافظہ ميرا

انھيں ماضى کى تلخ يادوں نے شاعر کو اس شعر پر آمادہ کر ديا - حضرت على عليہ السلام کا ارشاد ھے : انسان کے دل کى گھرائيوں ميں ايسى تلخ ياديں اور برائياں پوشيدہ ھيں جن سے عقل فرار کرتى ھے -

ڈاکٹر ھيلن شاختر کھتا ھے: جن لوگوں کو اپنى ذات پر اطمينان و بھروسہ نھيں ھوتا وہ معمولى سے رنج سے متاثر ھو جاتے ھيں اور ان تکليفوں کى ياديں ان کے دلوں ميں غير شعورى طور سے باقى رہ جاتى ھيں جو ان کے افعال و اقوال ، اعمال و افکار کو متاثر کر ديتى ھيں - جس کى وجہ سے وہ لوگ سخت مزاج ، غمگين اور بد گمان ھو جاتے ھيں اور ان کو پتہ نھيں چل پاتا کہ آخر وہ ان روحانى امراض کے کيونکر شکار ھو گئے - کيونکہ تلخ ياديں ھمارے تحت الشعور ميں مخفى رہ جاتى ھيں اور آسانى سے ظاھر نھيں ھوتيں -

دوسرے الفاظ ميں يہ عرض کروں کہ انسان فطرتاً اپنى تلخ يادوں سے فرارکرتا ھے - اس کو قطعاً يہ بات پسند نھيں ھوتى کہ ان يادوں کو خزانہ حافظہ سے نکال کر نظروں کے سامنے رکھے ليکن يہ پوشيدہ دشمن اپنى کينہ توزى سے دست کش نھيں ھوتا - ھمارے اخلاق ارواح اعمال کو اپنے حسب منشاء ابھارتا رھتا ھے چنانچہ کبھى ايسا بھى ھوتا ھے کہ اپنے سے اور دوسروں سے ايسے اعمال سر زد ھو جاتے ھيں يا ايسى گفتگوئيں سننے ميں آتى ھيں جو بظاھر بے سبب اور باعث کمال تعجب ھوتى ھيں ليکن اگر ھم ان کى کھوج ميں لگ جائيں تو پتہ چلے گا کہ يہ انھيں تلخ يادوں کى دين ھے جو ھمارے تحت الشعور ميں پوشيدہ تھيں -

پست فطرت لوگ اپنى ذات کو دوسروں کى طبيعتوں کا پيمانہ سمجھتے ھيں اور اپنى برائيوں کا عکس دوسروں ميں ديکھتے ھيں - چنانچہ حضرت على عليہ السلام نے اس سلسلہ ميں نھايت عمدہ بات فرمائى ھے- آپ ارشاد فرماتے ھيں : بد طينت شخص کسى کے بارے ميں حسن ظن نھيں رکھتا کيونکہ وہ دوسروں کا قياس اپنى ذات پر کرتا ھے -

 شعبہ تحرير و پيشکش تبيان