ظفر کي شاعري کي سنگلاخ زمينوں کي سطح کو توڑنے ميں پسينہ پسينہ ہو جاتے ہيں
ظفر کي شاعري پر بات کرتے وقت اکثر يہ ہوتا ہے کہ ہم ان کي سنگلاخ زمينوں کي سطح کو توڑنے ميں پسينہ پسينہ ہو جاتے ہيں اور اس مشکل کام کو ظفر کي مشکل پسندي کا نام دے ديتے ہيں- ظفر کي مشکل پسندي تو اس دور سے مستعار ہے- ظفر سے ہم يہ توقع کيونکر کر سکتے ہيں کہ وہ اپنے دور کے غالب رجحان مشکل پسندي سے باہر نکل کر ناصر کاظمي يا باني جيسي شاعري کرنے لگتے -
ظفر کے استاد شاہ نصير اور ذوق ہيں اور اس دور ميں جو شعرا ہيں وہ ہيں مرزا جان عيش، حافظ عبدالرحمن عيش، حافظ عبدالرحمن احسان، مير نظام الدين ممنون مومن خاں مومن اور خود غالب اور اس دور ميں شاعري کا معيار طئے کيا جاتا ہے سنگلاخ زمين اور مشکل سے مشکل رديفوں کو استعمال کرنے کے طريقہ سے ظاہر ہے بادشاہِ وقت اس رنگ سے اپنے آپ کو الگ کيونکر کرتے جب کہ قلعہ معلّيٰ کا اندازِ بيان ہي نہيں وہاں کي نشست و برخاست وہاں کے لباس اور وہاں کي زبان عوام ميں سندِ افتخار کا درجہ رکھتي ہے-
مولانا محمد حسين آزاد نے جو سرخيل ہيں دشمنانِ اردو غزل کے، روايت کے، اقدار کے اور خاص طور پر مغليہ حکومت کے اور ہمدرد ہيں انگريزوں کے انھوں نے آبِ حيات ميں ايک مقام پر اپنے والد کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ اپنے دوست ذوق سے کہا کرتے تھے کہ :
’’بادشاہ تمہارا زمين کا بادشاہ ہے خوب خوب طرحيں نکالتا ہے ليکن انھيں سرسبز نہيں کر سکتا اس کا کيا ہوا تم کرتے ہو‘‘ (نوائے ظفر ص:7)
اس اقتباس سے جو بات واضح ہوتي ہے وہ يہ کہ ظفر بادشاہ ذوق کے ہيں محمد حسين آزاد کے والد انھيں اپنا بادشاہ نہيں سمجھتے اور دوسري بات يہ واضح ہوتي ہے کہ محمد حسين آزاد کو اس رنگ کي شاعري سے کہ ہے جو رنگ اس دور کا غالب رنگ ہے اس کي وضاحت ان کے اس اقتباس سے بخوبي ہو جاتي ہے جس ميں انھوں نے مصحفي کے حوالے سے اپني بات کہي ہے :
’’الفاظ کو کم و بيش اور مضمون کو پس و پيش کر کے کچھ ايسا رکھ ديا ہے کہ جو حق استادي کا ہے وہ ادا ہو گيا ہے‘‘
(آبِ حيات ص:67 )
اس ميں کوئي دو رائے نہيں کہ عہدِ ظفر ميں شاعري کا رنگ مشکل پسندي سے موسوم تھا اور کامل استادانہ شان ہي يہ تھي کہ مشکل سے مشکل زمين ميں دور از کار مضامين کو باندھا جائے جس سے سامعين پر رعب پڑے اور ايسا ہي ہوتا تھا- ليکن اگر شعر ميں احساس کي شدت کا ذکر کيا جائے جو اس دور ميں بہت کم شعرا کے کلام ميں تھي تو اس ميں ظفر کو ممتاز مقام حاصل ہے- ان کي شاعري ميں جذبات، اور احساس کي شدّت پورے شباب پر ہے اور وہ اسے بيان کرنے ميں کبھي بھي پس و پيش نہيں کرتے بلکہ جو دل پہ گذرتي ہے رقم کرتے چلے جاتے ہيں-
نہ کسي کي آنکھ کا نور ہوں نہ کسي کے دل کا قرار ہوں
جو کسي کے کام نہ آ سکے وہ ميں ايک مشتِ غبار ہوں
ميرا رنگ روپ بگڑ گيا مرا يار مجھ سے بچھڑ گيا
جو چمن خزاں سے اجڑ گيا ميں اسي کي فصلِ بہار ہوں
سوزِ غمِ فراق سے دل اس طرح جلا
پھر ہو سکا کسي سے نہ ٹھنڈا کسي طرح
ہم يہ تو نہيں کہتے کہ غم کہہ نہيں سکتے
پر جو شبِ غم ہے وہ ہم کہہ نہيں سکتے
آج تک معلوم يہ مجھکو نہيں کيا چيز ہوں
کون ہوں کيا شئے ہوں ميں ناچيز ہوں يا چيز ہوں
اے ظفر کيا پوچھتے ہو کيا بتاۆں آپ کو
خاک ہوں ميں خاک ہو ناکارہ ہوں ناچيز ہوں
لگتا نہيں ہے جي مرا اجڑے ديار ميں
کسي کي بني ہے عالمِ نا پائدار ميں
مندرجہ بالا اشعار ميں غزل کا جو رنگ ہے يقيناً جديد ہے اور اپنے عہد کے عام رنگ سے ہٹ کر ہے حالانکہ سياست اور معاشرے کي زبوں حالي کا ذکر کرنے کے ليے عہد ظفر ميں ايک مايہ ناز صنف شہر آشوب موجود تھي اور اکثر شعرا اس صنف ميں طبع آز مائي بھي کر رہے تھے ليکن ظفر نے اس صنف کو ہاتھ بھي نہ لگايا اور غزل کے اشعار ميں ہي وہ تمام کرب و حزن يکجا کر ديے شاعري کي تعريف کرتے ہوئے ايک انگريز مصنف نے لکھا ہے:
’’شاعري ادب ہے جو عام طور سے انسان سے گہرا اور اعليٰ علاقہ رکھتا ہے- انساني دلچسپي کے جز کے علاوہ اس ميں جمالي دلچسپي بھي بدرجۂ اتم موجود ہوتي ہے کيونکہ ان لوگوں ميں جن ميں تفکر کا ذريعہ ايسي زبان ہے جس ميں شعر لکھا جاتا ہے- رفتہ رفتہ جمالي حسن کے ايسے نفيس سانچے تيار ہو جاتے ہيں کہ خيالات کو حسن کارانہ رنگ عطا کر کے پڑھنے والوں کے قلوب کو متاثر کر سکتے ہيں- ‘‘
ظفر کے يہاں جمالياتي احساس کي فراواني ہے حالانکہ وہ دور افراتفري کا ہے ليکن بادشاہ بہر حال بادشاہ ہے لہٰذا ان کي شاعري کا بڑا حصّہ ان کے قلبي اور ذہني واردات کا آئنہ ہے جس ميں انھوں نے جسماني اختلاط سے لے کر ذہني آسودگي تک کے موضوعات کو شعري نزاکتوں کے ساتھ برت ديا ہے-
جام ہے، شيشہ ہے، ساقي بھي ہے برسات بھي ہے
ان دنوں بادہ کشي دن بھي ہے اور رات بھي ہے
جوش مستي بھي ہے ہنگامِ ہم آغوشي بھي
خواہشِ وصل بھي ہے جائے ملاقات بھي ہے
وہ بھي سرمست ہے اور ہم بھي نشہ ميں سرشار
ہاتھ گردن ميں ہے اور لطف و عنايات بھي ہے
يار ہے يار کے ہے ساتھ ظفر بوس و کنار
اور اگر چاہيے کچھ بات تو وہ بات بھي ہے
جب انسان حالات کي چکّي ميں بري طرح پس جاتا ہے اور ان حالات سے نکلنے کي کوئي راہ سجھائي نہيں ديتي تو وہ ذہني طور پر ہي سہي اس کيفيت يا اس جبر سے فرار کي کوشش کرتا ہے اس ميں نفساني جذبات اس کے کام آتے ہيں اور وہ اس نشے ميں مدہوش ہو کر دنيا و مافيہا سے بے خبر ہو جاتا ہے-
بزرگوں نے تو يہ بھي کہا ہے کہ جب کوئي معاشرہ زوال پذير ہوتا ہے تو وہاں شعر و شاعري نيز فنونِ لطيفہ تيزي سے پروان چڑھتا ہے- اگر اس رائے کي روشني ميں ہم عہد ظفر کو ديکھيں تو اس قول کي صداقت صد في صد درست ثابت ہوتي ہے کہ جہاں عہد ظفر کے پہلے سے ہي مغليہ حکومت نام کو رہ گئي تھي اور پوري ہندوستاني تہذيب انگريزوں کے زير اثر آ چکي تھي ہر شعبۂ زندگي ميں اضمحلال کي کيفيت تھي ليکن شاعري کے ليے بالخصوص اور اردو ادب کے ليے بالعموم يہ سنہرا دور تھا- اور ادبي تاريخ کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان و ادب نے اس دور ميں جو نشانِ منزل مقرر کيے آج بھي ہم اس تک پہنچنے کي کوشش کرتے ہيں-
تحرير: ڈاکٹر محمد يحيٰ صبا
پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
بہادر شاہ ظفر اور 1857