• صارفین کی تعداد :
  • 2388
  • 8/25/2012
  • تاريخ :

حضرت خديجہ سب سے پہلے اِسلام لائيں

حضرت خدیجہ

حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا کو يہ مَنْقبَتْ حاصل ہے کہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہوئيں يعني حضور اَقدس صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي دعوتِ اسلام تمام اِنسانوں سے پہلے اِنہوں نے قبول کي- اِن سے پہلے نہ کوئي مرد اِسلام لايا نہ عورت نہ بوڑھا نہ بچہ-

صاحبِ مشکوٰة الا کمال في اسما ء الرجال ميں لکھتے ہيں

وَھِيَ اَوَّلُ مَنْ اٰمَنَ مِنْ کَافَّةِ النَّاسِ ذَکَرِھِمْ وَاُنْثَاھُمْ -

'' تمام اِنسانوں سے پہلے حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا اِسلام لائيں - تمام مردوں سے بھي اور تمام عورتوں سے بھي پہلے-''

وَمِثْلُہ فِي الْاِسْتِيْعَابِ حَيْثُ قَالَ نَاقِلاً عَنْ عُرْوَةَ اَوَّلُ مَنْ اٰمَنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ خَدِيْجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَاليٰ عَنْھَا-

حافظ ابنِ کثير رحمہ اللہ تعاليٰ البدايہ ميں محمد بن کعب سے نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہيں

اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ خَدِيْجَةُ وَاَوَّلُ رَجُلَيْنِ اَسْلَمَا اَبُوْبَکْرٍ وَعَلِيّ

''اُمت ميں سب سے پہلے حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا نے اسلام قبول کيا- اور مردوں ميں سب سے پہلے اِسلام قبول کرنے والے حضرت ابوبکر و حضرت علي رضي اللہ عنہما ہيں -''

ايک مرتبہ آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے عائشہ  کے ايک سوال کے جواب ميں فرمايا

وَقَدْ اٰمَنَتْ بِيْ اِذْ کَفَرَ بِيَ النَّاسُ وَصَدَّقَتْنِيْ اِذْکَذَّبُوْنِيْ وَاٰنَسَتْنِيْ بِمَالِھَا اِذْ حَرُمَنِيَ النَّاسُ وَرَزَقَتْنِيَ اللّٰہُ وُلْدَھَا اِذْ حَرُمَنِيْ اَوْلَادُ النِّسَآءِ -(البدايہ)

''وہ مجھ پر ايمان لائيں جب لوگ ميري رسالت کے منکر تھے اَور اُنہوں نے ميري تصديق کي جبکہ لوگوں نے مجھے جھٹلايا اور اُنہوں نے اپنے مال سے ميري ہمدردي کي جبکہ لوگوں نے مجھے اپنے مالوں سے محروم کيا اور اُن سے مجھے اللہ نے اَولاد نصيب فرمائي جبکہ دُوسري عورتيں مجھ سے نکاح کر کے اپني اَولاد کا باپ بنانا گوارہ نہيں کرتي تھيں - ''

اِسلام کے فروغ ميں حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا کا بہت بڑا حصّہ ہے- نبوت سے پہلے حضور اَقدس صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم تنہائي ميں عبادت کرنے کے ليے غارِ حرا ميں تشريف لے جايا کرتے تھے اور حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے ليے کھانے پينے کا سامان تيار کر کے دے ديا کرتي تھيں - آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم غارِ حرا ميں کئي کئي رات رہتے تھے- جب خوردو نوش کا سامان ختم ہو جاتا تو آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم تشريف لاتے اور سامان لے کر واپس چلے جاتے تھے-

ايک دِن حسبِ معمول آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم حراء ميں مشغولِ عبادت تھے کہ فرشتہ آيا اور اُس نے کہا اِقْرَأْ يعني پڑھيے- آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے کہا کہ ميں پڑھا ہوا نہيں ہوں - فرشتہ نے آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کو پکڑ کر اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے بھينچ کر چھوڑ ديا اور پھر کہا اِقْرَأْ (پڑھيے) آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے وہي جواب ديا ميں پڑھا ہوا نہيں ہوں - فرشتہ نے دوبارہ آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کو اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے دبا کر چھوڑ  ديا اور پھر پڑھنے کو کہا- آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے پھر وہي جواب ديا کہ ميں پڑھا ہوا نہيں ہوں - فرشتہ نے پھر تيسري مرتبہ آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کو پکڑ کر اپنے سے چمٹايا اور خوب زور سے دبا کر آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کو چھوڑ ديا اور خود پڑھنے لگا-

اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ o

يہ آيات سن کر آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے ياد فرما ليں اور ڈرتے ہوئے گھر تشريف لائے-

حضرت خديجہ رضي اللہ عنہاسے فرمايا زَمِّلُوْنِيْ زَمِّلُوْنِيْ (مجھے کپڑا اُڑھا دو مجھے کپڑا اُڑھا دو) اُنہوں نے آ پ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کو کپڑا  اُڑھا ديا اور کچھ دير بعد وہ خوف کي طبعي کيفيت جاتي رہي- اس کے بعد آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا کو اپنا سارا واقعہ سنا کر فرمايا لَقَدْ خَشِيْتُ عَليٰ نَفْسِيْ (مجھے اپني جان کا خوف ہے )-

عورتيں کچي طبيعت کي ہوتي ہيں مرد کو گھبرايا ہوا ديکھ کر اُس سے زيادہ گھبرا جاتي ہيں ليکن حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا ذرا نہ گھبرائيں اور تسلي ديتے ہوئے خوب جم کر فرمايا

کَلَّا وَاللّٰہِ لَايُخْزِيْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَليٰ نَوَائِبِ الْحَقِّ -

''خدا کي قسم ہرگز نہيں ايسا نہيں ہوسکتا کہ اللہ تمہاري جان کو مصيبت ميں ڈال کر تم کو رُسوا کرے(آپ کي صفات بڑي اچھي ہيں ايسي صفات والا رُسوا نہيں کيا جاتا)آپ صلہ رحمي کرتے ہيں اور مہمان نوازي آپ کي خاص صفت ہے- آپ بے بس و بے کس آدمي کا خرچ برداشت کرتے ہيں اور عاجزو محتاج کي مدد کرتے ہيں اور مصائب کے وقت حق کي مدد کرتے ہيں -''

اِس کے بعد حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائي ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئيں اور اُن سے کہا کہ اے بھائي ! سنو يہ کيا کہتے ہيں ؟ ورقہ بن نوفل بوڑھے آدمي تھے بينائي جاتي رہي تھي عيسائيت اختيار کيے ہوئے تھے- اُنہوں نے حضورِ اَقدس صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم سے دريافت کيا کہ آپ نے کيا ديکھا ہے؟ آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے اُن کو پوري کيفيت سے آگاہ فرمايا تو اُنہوں نے کہا

ھٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِيْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَليٰ مُوْسيٰ يَا لَيْتَنِيْ فِيْھَا جَذَعاً يَالَيْتَنِيْ اَکُوْنُ حَيًّا اِذْ يُخْرِجْکَ قَوْمُکَ - (بخاري شريف ص 3 )

''يہ تو وہي راز دار فرشتہ جبرائيل ہے جسے اللہ نے موسي (عليہ السلام ) پر نازل کيا تھا- کاش اُس وقت نوجوان ہوتا (جب آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي دعوتِ دين کا ظہور ہو گا ) کاش ميں اُس وقت تک زندہ رہتا جب آپ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي قوم آپ کو نکال د ے گي-''

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

حضرت خديجہ (س ) کو خدا کا سلام اور خوشخبري