• صارفین کی تعداد :
  • 2726
  • 8/15/2012
  • تاريخ :

شکوہ عيد کا منکر نہيں ہوں ميں ليکن

قبول حق ہيں فقط مرد حُر کي تکبيريں

عید سعید فطر

اللہ کے نبي کي اس ”‌ آميں”‌ کے مصداق آج بھي کتنے لوگ ہيں جن کو ہميں تلاش کرنے کے لئے کہيں دور نہيں جانا پڑتا رمضان کے آخري عشرے اور قدر والي راتيں ايک طرف ختم قرآن کي روح پرور مجالس دوسري طرف ان سب سے بے نيازوہ ہزاروں لوگ جو بازاروں کي رونق ہوتے ہيں‌ جہاں تيز آوازوں ميں بے ہنگم موسيقي رمضان کے تقدس کو پامال کر رہي ہوتي ہيں. ساري رات بازار کھلے رہتے ہيں اور لوگ نمازوں سے غافل عيد کي تياريوں اور تجارت ميں مصروف رہتے ہيں. عيد کے مقدس اسلامي تہوار کو بھي اغيار کي نقالي ميں لہو لعب کے فروغ کا ذريعہ بناليا جاتا ہے اور ميڈيا اس پر جس طرح عرياني اور فحاشي کي تبليغ کرتا ہے اسميں تو کہيں اس پاکيزہ تہوار کي جھلک بھي نظر نہيں آتي. اگر عيد کي صبح آپ ٹي وي اور ريڈيو کھوليں تو ہرگز دل يقين نہيں‌کرتا کہ اس قوم کا تہوار ہے جس نے پچھلا عشرہ طاق راتون ميں مغفرت طلب کرتے گزارا ہے جنھوں نے رمضان کو نزول قرآن کے جشن کے طور پر منايا ہے. يہ ہم اغيار کي نقالي کر کے اپنے روشن خيال ہونے کا ثبوت ديتے ہيں اور يہ بھول جاتے ہيں کہ محض‌پہلي شوال کے سورج کا طلوع ہونا عيد نہيں. عيدصرف اس کے لئے ہے جس نے رمضان کا شعوري طور پر حق ادا کر کے اپنے رب کو راضي کيا. جس نے پورا رمضان اپنے رب کے غضب کوبھڑکانے والے کام کئے اور غفلت اور محرومي ميں پڑا رہا وہ کس منہ سے عيد کي صبح تکبير کہتا ہوا عيدگاہ جائے گا جس نے بغير کسي عذر کے رمضان کے روزے رکھنے کي زحمت ہي نہ کي- رب کي ناراضگي سے بچنے اور اسکو راضي کرنے سے بے نياز رہا- وہ کس چيز کي خوشي منائے گا- حقيقت يہي ہے کہ معاشرے ميں عيد کا جشن اور عيد کي تياري کي جو مروجہ رسومات ہيں انھوں نے حقيقي عيد کے تصور کو بہت دھندلاديا ہے عيد کي تياري رمضان کے تقاضوں سے بے نياز کردے، عيد کا جشن تمام حدود الہي کو توڑ دے- مزدوروں کو مزدوري دي جارہي ہو ، ہر گھر اور در سے موسيقي کي مضائيں بلند ہورہي ہوں، عورتيں بازاروں کي زينت ہوں- شيخ عبدالقادر جيلاني رحمۃ اللہ نے عيد کي حقيقي تصوير بڑے دل سوز انداز ميں کھنچي ہے، فرماتے ہيں:

– عيد انکي نہيں جو دنياوي زينت ميں لگے رہے، عيد تو انکي ہے جنھوں نے تقويٰ و پرہيزگاري کو رادراہ بنايا-

– عيد انکي نہيں جنھوں نے اپنے گھروں کو اعليٰ قالينوں سے سجايا، عيد تو انکي ہے جو پل صراط سے گزرگئے-

– عيد انکي نہيں جو عمدہ سواريوں پر سوار ہوئے، عيد تو انکي ہے جنھوں نے گناہوں کو ترک کرديا-

– عيد انکي نہيں جو کھانے پينے ميں مشغول رہے، عيد تو لوگوں کي ہے جنھوں نے اپنے اعمال ميں اخلاص پيدا کرليا-

اس عيد الفطر کے جشن کي ايک امتيازي خصوصيت يہ کہ جو چيز (فطرہ) حقوق العباد سے متعلق ہے وہ حقوق اللہ (دوگانہ نماز) پر مقدم ہے- فطرے کي ادائيگي، نماز کي ادائيگي سے پہلے کي جائيگي جسکي سخت تاکيد اور اصرار ہے- مقصد يہ کہ آج اپني عسرت کے باعث کوئي بھي اس خوشي ميں شريک ہونے سے نہ رہ جائے- آج کوئي بھي محروم نہ رہ جائے- فطرے کي ادائيگي کے بعد نماز دوگانہ ہے جسميں عورتيں، مرد، بچے سب شريک ہونگے- عورتوں کے ليے مساجد ميں خصوصي اہتمام کيے جائيں گے- يہ دوگانہ نماز اسلام کي تہزيب کي عکاس ہے- اسميں ہر نسل، ہر رنگ، ہر طبقہ کے لوگ بلا کے تخصيص کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونگے- آج جشن کے دن کوئي بڑا اور چھوٹا نہيں رہا- سب صف بنائے اس درگاہ ميں حاضر ہيں جہان کے پيمانے دنيا کے پيمانوں سے يکسر مختلف ہيں- کيسا عظيم الشان منظر ہے يہ- حکم ہے کہ نماز عيد کھلي جگہوں اور ميدانوں ميں ادا کي جائے تاکہ اسلام کي شوکت کا يہ نظارہ باطل پر دھاک بيٹھا دے اور اس عالمگير برادري کو کوئي کمزور نہ سمجھے! شرق و غرب ميں چند گھنٹوں کے فرق سے جسن منايا جارہا ہے- جو دنيا بھر ميں اس عالمگير برادري کو متعارف کرا رہا ہے- اسکے اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے- تو يہ ہے مومنين کي عيد کا پاکيزہ تہوار جسکي اقوام عالم کوئي نظير پيش نہيں کرسکتي-

شکوہ عيد کا منکر نہيں ہوں ميں ليکن

قبول حق ہيں فقط مرد حُر کي تکبيريں

بشکريہ قلم کارواں ڈاٹ کام


متعلقہ تحريريں:

عيد کے دن غريبوں کا دل نہ دکھائيں