• صارفین کی تعداد :
  • 2609
  • 8/15/2012
  • تاريخ :

عالمي يوم القدس اور اسرائيل کے ناپاک وجود کا خاتمہ!

عالمی یوم القدس

 ظلم کي يہ سياہ رات جسے اسرائيل کي صورت ميں برطانيہ و امريکہ نے دنيا پر مسلط کيا، ايک دن چھٹ کر رہے گي ----  آج نہيں توکل ------ دنيا اس صيہوني رياست کے وجود سے پاک ہوگي ------ اور وہ دن کتنا خوبصورت اور خوشگوار ہوگا جب دنيا کے نقشہ سے اسرائيل کا وجود مٹ جائے گا- اور ہم سب مل کر ارض مقدس ميں قبلہء اول کے اندر نماز ادا کريں گے اور دنيا پر امن و سلامتي کا راج ہوگا ---- اور عالمي يوم القدس بھي قدس ميں ہوگا، جہاں شہيدوں کو ياد کرکے آزادي کے نغمے گنگنائے جائيں گے-

باني انقلاب اسلامي حضرت امام خميني (رہ) نے جمعۃالوداع کو عالمي يوم القدس قرار ديا تھا اور اس روز کي اہميت اس قدر آشکار کي کہ اسے يوم الاسلام اور يوم اللہ قرار ديتے ہوئے امت اسلامي کو اسے منانے کي بھي بھرپور تاکيد فرمائي- انبياء (ع) کي سرزمين فلسطين اور قبلہء اول بيت المقدس پر صيہونيوں کے ناجائز قبضہ کو چونسٹھ برس گذر چکے ہيں- 15 مئي 1948ء کو دنيا پر ناجائز وجود پانے والي رياست کو امام راحل امام خميني (رہ) نے مسلمانوں کے قلب ميں خنجر سے تعبير کيا تھا اور امت کو اس کي آزادي کي راہ جہاد کي صورت دکھائي تھي، مگر خائن عرب حکمرانوں نے اسرائيل کے ناپاک وجود کو تسليم کرتے ہوئے اس کے سامنے تسليم ہونے کي ذلت کو گوارا کيا-

نتيجتا ہم ديکھ رہے ہيں کہ مسلمان اسي طرح دربدر ہيں --- امام راحل امام خميني (رہ) نے ايران ميں اسلامي انقلاب لانے اور استعمار کو زبردست شکست دينے کے بعد عالمي سطح پر اسلامي کيلنڈر کے ايک اہم ترين دن جمعۃالوداع کو يوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کيا، تاکہ مسئلہ قدس امت اسلامي فراموش نہ کر دے اور اس کے ساتھ ہي فلسطيني مجاھدين کي کھلي حمايت و مدد بھي شروع کي- ايران کي طرف سے مظلوم فلسطينيوں کي مدد کا يہ سلسلہ آج بھي جاري ہے- وہ اس وقت بھي عالمي استعمار اور اسرائيل کي آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے، جس کے نام سے ان کي روح و جسم ميں لرزا طاري ہو جاتا ہے ---

اگر مسلمان حکمران ايران کا ساتھ ديتے تو اسرائيل کا وجود يقيناً طدنيا سے مٹ چکا ہوتا، مگر ہم ديکھتے ہيں کہ يہ 64 برس عالم اسلام کي اجتماعي بے حسي اور مظلوم فلسطينيوں سے مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رويوں کي طويل اور دردناک داستانوں سے بھرے ہوئے ہيں، تو دوسري طرف يہ64 برس ظلم و بربريت وحشت و درندگي کي قديم و جديد تاريخ سے بھرپور اور سفاکيت کے انمٹ مظاہروں کي پردرد و خوفناک کہانيوں کے عکاس ہيں ------ ان چو نسٹھ برسوں ميں ارضِ مقدس فلسطين ميں ہر دن قيامت بن کر آيا ہے، ہر صبح ظلم و ستم کي نئي داستان لے کر طلوع ہوئي، ہر لمحہ بے گناہوں کے خون سے، گھر بار، سڑکيں، بازار، مساجد و عبادت گاہيں، سکول و مدارس کو رنگين کرنے کا پيامبر بن کر آيا ہے ------ 

ناجائز رياست اسرائيل کے حکمرانوں نے ان چونسٹھ برسوں ميں خون آشاميوں کي جو تاريخ رقم کي ہے اس کي مثال تاريخ کے صفحات بيان کرنے سے قاصر ہيں ------ کون سا ظلم ہے، جو بے گناہ، معصوم اور مظلوم قرار ديئے گئے ارض مقدس فلسطين کے باسيوں پر روا نہيں رکھا گيا ------ آج فلسطين کي دختران کي عزتوں کي پائمالي کا حساب نہيں، کتابيں اور بيگ اُٹھائے سکول جاتے معصوم بچوں پر بموں کي يلغار اور گوليوں کي بوچھاڑ کے واقعات سے کئي دفتر مرتب ہوچکے ہيں، سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں ميں سجائے تعليمي اداروں ميں جانے والے، والدين کي اُميد، نوجوانوں کي خون ميں اٹي لاشيں اور نوحہ و ماتم کرتي ماۆں اور بہنوں کي چيخ و پکار اور نالہ و فرياد کے مناظر دنيا کے باضمير انسانوں کو ہر روز جھنجھوڑنے کي کوشش کرتے ہيں------! 

يہ دلدوز مناظر، خون آشام داستانيں، روح فرسا کہانياں، گوليوں سے چھلني لاشيں، بہتے لہو کي دھاريں ------ يہ اُجڑتے سہاگ، يتيمي کا لباس پہنے معصوم بچے، ضعيفي و ناتواني کے چھينے گئے سہارے ------ يہ تاراج بستياں، برباد کھيت و کھليان، ٹوٹي سڑکيں، اُداس يونيورسٹياں اور خوف، وحشت اور ڈر کا چہار سُو راج ------ يہ ايک دن، ايک مہينہ اور ايک برس کا قصہ و کہاني نہيں ------ بلکہ ظلم کي بنياد پر وجود ميں آنے والي صيہوني رياست کے قيام ميں آنے کے بعد سے يہ سب کچھ ہو رہا ہے --- 

ہر آنے والا دن ان مظالم ميں اضافہ لاتا ہے ------ ظلم و زيادتي اور تشدد کي نئي داستان رقم کي جاتي ہے ------ اس قتل و غارت، سفاکيت و بربادي کے پيچھے دراصل ايک فلسفہ و فکر کار فرما ہے ------ اسي فلسفہ و فکر کے حامل صيہوني يہوديوں نے بيسويں صدي کے اوائل ميں فلسطين کي جغرافيائي اہميت کے پيش نظر اسے اپنے قبضہ ميں کرنے کا پروگرام ترتيب ديا- پہلي جنگ عظيم ميں برطانيہ نے فلسطين پر قبضہ کر ليا اور اپني بالادستي قائم کر لي- جنگ ختم ہوئي تو برطانيہ نے وہ اعلان کيا جسے "اعلان بالفور" کے نام سے ياد کيا جاتا ہے- 

يہ اعلان 2 نومبر 1917ء کو سامنے آيا اور اس ميں سرزمين فلسطين يہوديوں کو بطور قومي وطن عطا کرنے کا وعدہ کيا گيا- عالمي طاقتوں کي سرپرستي ميں اس وقت يہ سازش عملي شکل اختيار کر گئي، جب دنيا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب ميں واقع اسرائيل نامي ناجائز صہيوني رياست کا اعلان 15 مئي 1948ء کو کيا گيا- تسلط و طاقت کے فلسفہ پر قائم اس ناجائز رياست کے ساتھ ہي ظلم و جور اور سفاکيت و بربريت کا يہ سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہو جاتا ہے- 

توسيع پسند و تسلط و طاقت کے نشہ ميں مدہوش اسرائيل نے 1967ء ميں تمام فلسطين پر قبضہ کرليا اور مقامي باشندوں کو بے دخل کر ديا، يوں اس سرزمين کے اصل وارث لاکھوں کي تعداد ميں اردن، لبنان اور شام ميں پناہ لينے پر مجبور ہوگئے، مگر سامراجي اور استعماري ہتھکنڈوں نے انہيں يہاں سے بھي نکالنے کي سازش کي- چنانچہ ستمبر 1975ء ميں اردن کي شاہي افواج نے يہاں پر مقيم فلسطينيوں پر ظلم کي انتہا کر دي- ان کا قتل عام کيا گيا، اس کے بعد ان فلسطينيوں کو لبنان ميں پناہ پر مجبور کر ديا گيا- اس بھيانک ظلم کو سياہ ستمبر کے عنوان سے ياد کيا جاتا ہے- 

درماندہ، ظلم و ستم کي چکي ميں پسنے والے اور اپنے وطن، گھر اور آبائي سرزمين کے حصول کي خواہش رکھنے والے فلسطينيوں نے استعماري سازشوں کا مقابلہ اور اسرائيلي مفادات کو نقصان پہنچانے کيلئے کارروائياں جاري رکھيں، دوسري طرف اسرائيل کو عالمي طاقتوں بالخصوص امريکہ نے بہت زيادہ مالي و فوجي امداد دي اور ہر قسم کا تعاون کيا، حتيٰ کہ اقوام متحدہ ميں پيش ہونے والي اسرائيل مخالف قراردادوں کو ويٹو کرنا بھي امريکہ نے اپنا وطيرہ بنا ليا جبکہ امريکہ نے اسرائيل کے خلاف اقوام متحدہ کي پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد بھي نہيں ہونے ديا ------ اس کشمکش ميں اسرائيل نے لبنان پر بھي حملے کئے اور لبنان کے کئي علاقوں پر بھي قابض ہوگيا- يوں تحريک آزادي فلسطين کے بعد مزاحمت اسلامي لبنان نے بھي جنم ليا اور اسرائيل کي توسيع پسندي و تشدد پسندي کے خلاف قربانيوں کي داستانيں رقم کرنے کا سلسلہ شروع کيا-

ايک طرف تو يہ ظلم و ستم بڑھتا رہا اور دوسري طرف ظلم و سازشوں اور اپنوں کي بزدلي و منافقت کے شکار ارضِ مقدس فلسطين اور لبنان کے باسيوں ميں ظالموں جابروں، ستم گروں اور منافقوں سے نفرت اور حقيقي قيادت و صالح مقاصد کے حصول کا جذبہ فروغ پاتا رہا- لبنان ميں امريکي، فرانسيسي اور صيہوني فوجيوں کے خلاف خودکش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو يہ لوگ دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور فلسطين ميں جہادي تحريکوں نے رفتہ رفتہ زور پکڑا اور آپس کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر غاصب يہوديوں کے خلاف کارروائيوں کو تيز کيا ------ اسرائيل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نہتے فلسطينيوں کي پتھر سے شروع ہونے والي تحريک، غليل سے ہوتي ہوئي کلاشنکوف اور راکٹ لانچر کے بعد ميزائلوں تک پہنچ چکي ہے-

64 برس ميں فلسطينيوں نے يہ سيکھ ليا ہے کہ گوليوں کي بوچھاڑ ميں، بارود کي بارش ميں، تاراجي اور بربادي ميں، منافق اور بزدل ليڈروں، استعماري سازشوں، خوراک کي قلت، محاصرے، گھروں سے نکالے جانے اور مہاجر بنا ديئے جانے ميں کيسے زندہ رہنا ہے، اپني مظلوميت کو اپني طاقت ميں کيسے بدلنا ہے- استعمار کے مسلط کردہ حکمرانوں سے کيسے نمٹنا ہے اور استعمار کو کيسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کرنا ہے، لبنان کي 33 روزہ جنگ ميں حزب اللہ کے مجاہدوں کے ہاتھوں بدترين شکست کے بعد غزہ کي 22 روزہ جنگ ميں اسرائيل فلسطيني مجاہدين کے ہاتھوں رسوا کن شکست کا مزہ چکھ چکا ہے- فلسطيني ملت جان چکي ہے کہ شہادتوں کو کيسے اپني قوت اور طاقت ميں تبديل کرنا ہے، درد کو کيسے دوا بنانا ہے- 

آج فلسطين کي غيور ملت نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کے جوہر عظيم کي شناخت کرکے عزت و سعادت کا راستہ اختيار کر ليا ہے- ارض فلسطين کي آزادي کيلئے ان 64 برسوں ميں ہزاروں قيمتي لوگ اپني جانوں کے نذرانے پيش کر چکے ہيں، ان ميں عام لوگ بھي ہيں اور تحريک آزادي کے قائدين اور مجاہدين بھي- گذشتہ برسوں ميں ڈکٹر فتحي شقاقي، شيخ احمد يٰسين، ڈاکٹر رنتيسي اور حماس و جہاد اسلامي کے قائدين کي عظيم قربانيوں نے شجاعت کي جو داستانيں رقم کي ہيں وہ مشعل راہ کا درجہ رکھتي ہيں- 

آج فلسطين کے اندر يا باہر پيدا ہونے والے فلسطيني بچے کو جہاد و شہادت کي گھٹي دي جاتي ہے، ان کے کانوں ميں شہادت و جہاد کے شعار کي اذان دي جاتي ہے- فلسطين کي عظيم مائيں ايثار و قرباني کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے بچوں کي تربيت کرتي ہيں- يہي وجہ ہے کہ تمام تر عالمي سازشوں، ظلم و تشدد اور منافقت کے پروردوں کي غداري کے باوجود يہاں پر ارضِ مقدس فلسطين کي آزادي اور يہوديوں کو يہاں سے مکمل طو ر پر نکال باہر کر دينے کے جذبات اور احساسات غالب آچکے ہيں-

آج ہر فلسطيني بچہ، بزرگ، نوجوان، خواتين اس عزم پر آمادہ و تيار نظر آتے ہيں کہ وہ اپني گردنيں تو کٹوا سکتے ہيں ليکن ارضِ مقدس فلسطين پر ناپاک صہيوني قبضہ کسي صورت برداشت نہيں کرسکتا اور اپني دھرتي کا ہر ايک انچ اسرائيلي قبضے سے آزاد کروا کے رہيگا- تاريخ گواہ ہے کہ جو قوميں اپنے مقصد کے حصول کيلئے قربانياں پيش کرنے اور جانوں پر کھيلنا سيکھ جاتي ہيں، انہيں زيادہ دير تک غلام اور زير نگيں نہيں رکھا جاسکتا- ويسے بھي ظلم و طاقت کے زور پر کب تک يہ تاريکي چھائي رہے گي ------ جوان اپني جوانياں لٹا کر اور بہنيں اپني عزتوں کو قربان کرکے بھي اس تاريکي کو صبح نو ميں تبديل کر کے چھوڑيں گے-

ظلم کي يہ سياہ رات جسے اسرائيل کي صورت ميں برطانيہ و امريکہ نے دنيا پر مسلط کيا، ايک دن چھٹ کر رہے گي ------ آج نہيں توکل ------ دنيا اس صيہوني رياست کے وجود سے پاک ہوگي ------ اور وہ دن کتنا خوبصورت اور خوشگوار ہوگا جب دنيا کے نقشہ سے اسرائيل کا وجود مٹ جائے گا- اور ہم سب مل کر ارض مقدس ميں قبلہء اول کے اندر نماز ادا کريں گے اور دنيا پر امن و سلامتي کا راج ہوگا ---- اور عالمي يوم القدس بھي قدس ميں ہوگا، جہاں شہيدوں کو ياد کرکے آزادي کے نغمے گنگنائے جائيں گے.

تحرير: علي ناصر الحسيني/ اسلام ٹائمز

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

قدس کا راستہ کربلا سے گذرتا ہے 3