• صارفین کی تعداد :
  • 3021
  • 8/15/2012
  • تاريخ :

انٹر نٹ پر جھوٹے سورے

انٹر نٹ پر جھوٹے سورے

  انٹر نٹ کي ايجاد ايک ايسي مفيد ايجاد ھے کہ جس نے اس دنيا کو ايک چھوٹے سے ديھات بلکہ در حقيقت ايک بڑے کمرے کي صورت ميں تبديل کر ديا ھے کہ جس کے ذريعہ تمام انسان ايک ھي وقت ميں ايک دوسرے سے رابطہ برقرار کر سکتے ھيں اور ايک دوسرے کا چھرہ ديکہ سکتے ھيں اور باتيں بھي سن سکتے ھيں ، ليکن يہ ايجاد مفيد ھونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھي ھو سکتي ھے -

اس قاعدے کو پيش نظر رکھتے ھوئے اسلام کے عظيم دانشمندوں کا فريضہ ھے کہ صدي کي اس ايجاد سے کہ جس نے عقلوں کو حيران کر ديا ھے ، فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کے ذريعہ اسلام اور شيعيت کے دشمنوں کي طرف سے لگائي جانے والي زھر آلود تھمتوں اور جھوٹے الزاموں کي طرف بھي متوجہ رھيں -

اگر چہ اس کي ايجاد کو ابھي مختصر عرصہ ھي گزرا ھے ليکن استعماري گروہ کہ جو زيادہ تر ھمارے جوانوں کے عقائد کو متزلزل کرنے کي فکر ميں رھتا ھے مختلف راھوں سے وارد عمل ھو چکا ھے اور ھر طرف سے ھماري تھذيب و ثقافت کو مورد ھجوم قرار دے چکا ھے يھاں تک کہ قرآن مجيد کا جواب لانے کي فکر ميں بھي پڑ گيا ھے اور اپنے زعم ناقص ميں يہ سمجھ رھا ھے کہ وہ اس کا مثل لے آئے گا اور اس طرح سے وہ مسلمانوں کو شرمندہ کر سکے گا -

بعض بے بضاعت افراد نے بعض جملوں کو خود قرآن مجيد کي آيتوں اور جملوں سے اقتباس کر کے جمع کيا اور يہ سوچا کہ اس طرح سے وہ قرآن مجيد کے سوروں کے مانند چار سورے تيار کر کے پيش کريں اور يہ کھيں کہ ھم قرآن مجيد کے سوروں کے مانند چار سورے لے آئے ھيں اور ھم نے قرآن مجيد کے چيلنج کا جواب دے ديا ھے !

قرآن مجيد ايک سورے ميں منکروں سے يہ مطالبہ کر رھا ھے کہ وہ اس کا مثل لائيں-

”‌ فلياتوا بحديث مثلہ ان کانوا صادقين “( طور / 34)

”‌ يعني قرآن کے مانند لاۆ اگر تم سچے ھو “ -

دوسرے مقام پر صرف دس سوروں کا جواب لانے کا مطالبہ کر رھا ھے اور يہ چيلنج کر رھا ھے کہ تم صرف دس سوروں کا جواب لے آۆ - ”‌ ام يقولون افتراہ قل فاتو بعشر سور مثلہ مفتريات “ ) ھود / 13) ”‌ کيا يہ لوگ کھتے ھيں کہ اس قرآن کي خدا کي طرف جھوٹي نسبت دي گئي ھے؟ اے پيغمبر! آپ ان لوگوں سے کھديجئے کہ اس کے جيسے دس سورے گڑہ کر تم بھي لے آۆ “-

تيسري آيت ميں چيلنج کي مقدار ميں اور کمي کر دي ھے اور صرف ايک سورے پر اکتفاء کي ھے - ”‌ و ان کنتم في ريب مما نزلنا عليٰ عبدنا فاتوا بسورة من مثلہ “ ( بقرہ /23) ”‌ کھديجئے کہ اگر تم اسکے متعلق کہ جو ميں نے اپنے بندے پر نازل کيا ھے شک ميں مبتلا ھو تو تم اس کے ايک سورے کا مثل لے آۆ “ -

ان آيا ت کو ديکھتے ھوئے يہ سمجھنا ضروري ھے کہ قرآن مجيد نے جو پورے قرآن يا دس سوروں يا ايک سورے کے مثل لانے کا چيلنج پيش کيا ھے اس سے کيا مراد ھے ؟

قرآن مجيد کے مثل لانے کا مطلب يہ ھے کہ کوئي ايک شخص يا متعدد افراد نئي انشا پردازي اور تخليق کے ساتھ بلند مقاصد اور مفاھيم کو جملوں اور کلمات ميں اس طرح ڈھاليں کہ اس کي شيريني اور جذابيت اس طرح سے آيات قرآني کے مساوي ھو کہ اگر دونوں کو ساتھ ميں رکہ کر ديکھا جائے تو يہ کھا جا سکے کہ يہ اس کا مثل لے آيا ھے -

مثلاً فرض کيا جائے کہ سورہء کوثر قرآن مجيد کا جزء نہ ھوتا اور کوئي شخص خود رسول )ص) کے دور ميں يا اس کے بعداسے پيش کرتا تو اسے قرآن مجيد سے مقابلہ کرنا کھا جائے گا - ليکن خود قرآن مجيد کے جملوں سے اقتباس کرنا اور قرآن مجيد کے ظاھري روش کے مطابق بعض الفاظ اور بے معني مفاھيم کو ترتيب دے کر پيش کرنا تو قرآن مجيد کا جواب لانا نھيں کھا جا سکتا -

اگر اسي کو قرآن مجيد کا جواب لانا کھا جاتا تو اس طرح کے جوابات تو صديوںسے دئے جا رھے ھيں ليکن کسي نے بھي ان کو اھميت نھيں دي ھے -

مسيلمہ کذاب پھلا وہ شخص ھے کہ جو قرآن مجيد سے مقابلہ کرنے کي فکر ميں پڑا - وہ رسول اسلام (ص) پر ايمان لانے کے بعد آپ کے دين سے منحرف ھو گيا اور خود پيغمبري کا دعويٰ کر بيٹھا اور پيغمبر )ص) کو اس طرح سے ايک خط لکھا : ”‌ من مسيلمة رسول اللہ اليٰ محمد رسول اللہ، سلام عليک : اما بعد فاني قد اشرکت في الامر معک و ان لنا نصف الارض و لقريش نصف الارض و لکن قريشا قوم يعتدون “-

آپ نے اس کے جواب ميں تحرير فرمايا : ”‌ بسم اللہ الرحمن الرحيم ، من محمد رسول اللہ اليٰ مسيلمة الکذاب ، السلام علي من اتبع الھديٰ ، اما بعد - ان الارض للہ يورثھا من يشاء من عبادہ و العاقبة للمتقين “ ( اعراف /128)

آپ اس آيت کو کہ جو رسول اسلام (ص) نے اس کو لکھي اس جملے سے ملا کر ديکھيں کہ جو اس نے اپنے خط ميں لکھا تھا، صرف مختصر سي ظاھري شباھت پائي جاتي ھے ورنہ معني و مفاھيم اور فصاحت و بلاغت وغيرہ کے اعتبار سے اصلاً مقابلہ ھي نھيں کيا جا سکتا ھے -

مسيلمہ ايک بار پھر قرآن مجيد کا جواب لانے کي فکر ميں لگا اور اس نے سورہء اعليٰ کے مانند کچہ جملے جمع کرنا چاھے ليکن اس کے کلام اور سورہء اعليٰ ميں اتنا فاصلہ پايا جاتا ھے کہ ھر گز وہ سورہء اعليٰ سے مشابہ معلوم نھيں ھوتے- قرآن مجيد فرماتا ھے : ”‌ سبح اسم ربک الاعليٰ ، الذّي خلق فسويّٰ ، و الذّي قدّر فھديٰ ، و الذّي اخرج المرعيٰ ، فجعلہ غثاءً احويٰ “(اعليٰ /1-5)

اس نے اس سورے کے جواب ميں اس طرح کھا : ”‌ لقد انعم اللہ علي الحبليٰ ، اخرج منھا نسمة تسعيٰ ، بين صفاق و خشا“ -

عيسائي مصنفين نے جس چيز کو اس سورہ کے جواب کے عنوان سے پيش کيا ھے وہ مسيلمہ کذاب اور اس کے ھمفکر افراد کے گڑھے ھوئے جملوں کے بھي مساوي نھيں ھے- وہ يہ تصور کرتے ھيں کہ قرآن مجيد کا جواب لانے کے لئے صرف وزن و آھنگ اور دو جملوں کے درميان فواصل کا وجود کافي ھے اور مثل لانے کے دوسرے شرائط مثلا ً معاني و مطالب کي بلندي ،جملوں کي لطافت اور کلام کي جذابيت سے غافل ھيں لھذا اس قسم کے مھمل جملوں کو قرآن مجيد کا جواب تصور کرتے ھيں -

بشکریہ الحسنین ڈاٹ کام

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

مسلمانوں کو قرآن کي روشني ميں زندگي بسر کرني چاہيۓ