• صارفین کی تعداد :
  • 2214
  • 8/6/2012
  • تاريخ :

ماه رمضان اور تدبير الہي سے بے خوف ہونا

رمضان المبارک

* تدبير الہي سے بے خوف ہونا:

 'کيا يہ لوگ تدبير الہي سے بے خوف ہوگئے تو اللہ کي تدبير سے بے خوف وہي ہوتے ہيں جو گھاٹے ميں ہيں- ' (اعراف:99)

اپنے آپ کو الہي تدبير سے بالاتر سمجھنا اور يہ سمجھنا کہ اللہ ہمارا کچھ نہيں بگاڑ پائے گا يہ بڑي خوش فہمي ہے اور ايسا انسان بڑے گھاٹے ميں رہے گا- حقيقت يہ ہے کہ انسان اپنے منصوبوں کے لحاظ سے کتني ہي منصوبہ بندي کيوں نہ کرلے اور دور انديشي کے ساتھ ساتھ کام کے حواشي و جوانب پر کتنا ہي احتياط اور زيرکي کے ساتھ نگاہ کيوں نہ ڈال لے پھر بھي اگر اللہ کي تدبير کے مقابل ہو تو ذرہ برابر کامياب نہيں ہوسکتا- اور يہ بات تاريخ انسانيت کي سيکڑوں بار کي آزمائي ہوئي بھي ہے- طوفان نوح عليہ السلام ميں فرزند نوح کا ڈوبنا، دربار فرعون ميں حضرت موسي عليہ السلام کا پروش پانا، جناب ابراہيم عليہ السلام کا بھڑکتي آگ سے صحيح سالم نکل آنا، شداد کا اپني ہي جنت کے نظارے سے محروم رہ جانا اور اس کے علاوہ نہ جانے کتني مثاليں يہ بتاتي ہيں کہ اللہ کي تدبير ہر تدبير سے بالاتر ہے-

* قتل:

'اور جو جان بوجھ کر کسي مومن کو قتل کردے تو اس کي سزا دوزخ ہے وہ اس ميں ہميشہ رہے گا اور اللہ کا غضب اور لعنت اس پر ہے اور اللہ نے اس کے لئے عظيم عذاب تيار کررکھا ہے-' (نسائ:93)

* قطع رحم:

 'جو لوگ پختہ کرنے کے بعد اللہ سے کئے عہد کو توڑديتے ہيں اور جس (رشتہ) کو جوڑنے کا حکم ديا ہے اسے کاٹ ديتے ہيں اور زمين ميں فساد برپا کرتے ہيں يہي لوگ گھاٹے ميں ہيں-' (بقرہ:27)

جو قريبي رشتہ دار ہيں ان کے ساتھ اچھے روابط رکھنا ضروري ہے اور تعلقات کو توڑنا نہايت غلط کام ہے اچھے برے وقت ميں ان کا ساتھ دينا ضروري ہے- حديث ميں آيا ہے کہ صلہ رحم کيجئے چاہے ايک بار سلام کرنے کے ذريعہ ہي ہو-

البتہ ظاہر سي بات ہے کہ يہ کام اور حسن روابط کي برقراري يک طرفہ نہيں بلکہ دوطرفہ ہوتي ہے جيساکہ اردو کا محاورہ بھي ہے کہ تالي ايک ہاتھ سے نہيں بلکہ دونوں ہاتھوں بجتي ہے- لہذا يہ کام دونوں طرف سے ہونا چاہئے اور کسي کو يہ حق نہيں کہ وہ اپنے اقدام کو چھوڑکر صرف دوسرے افراد سے يہ توقع رکھے کہ وہ آکر اس کے ساتھ صلہ رحم کرے- البتہ يہ انتہائي باريک بيني کا کام ہے اور اس کے مصداق کي تشخيص آسان کام نہيں ہے لہذا بڑے احتياط اور فرض شناسي کے ساتھ اسے انجام دينا چاہئے-

* يتيموں کا مال کھانا:

 'جو لوگ يتيموں کے مال کو ظالمانہ طريقہ سے کھاتے ہيں وہ اپنے پيٹ ميں آگ بھرتے ہيں اور عنقريب واصل جہنم ہوجائيں گے- ' (نسائ:10 )

يہ گزر چکا ہے کہ يتيم وہ محروم ہيں کہ نہ دوسرے ان کي مدد کرتے ہيں اور نہ وہ خود اپني مدد کرسکتے ہيں يہاں تک کہ ان کو اپني مدد کرنے کا شعور تک نہيں ہوتا-

* بدکاري (زنا):

 'اور زنا کے قريب نہ جاۆ، يہ انتہائي گندا کام اور برا راستہ ہے-' (اسرائ:32)

ديگر شريعتوں ميں بھي يہ حرام تھا اور دين اسلام ميں بھي حرام ہے اور اس کے لئے سخت سزا کا حکم ديا گيا ہے-

*شراب خوري: (مائدہ:9٠ ) اے ايمان لانے والو! شراب، جوا، بت اور پانسہ يہ سب شيطاني گندے اعمال ہيں ان سے پرہيز کرو شايد تم لوگ نجات پاجاۆ-

مذکورہ چيزيں ايسي ہيں جن ميں دنياوي نقصان بھي ہے اور اخروي بھي کيونکہ دنيا ميں وقت بربادي کاسبب ہوتے ہيں اور آخرت ميں دوزخ کا-

* پيماں شکني:

 'جو لوگ پختہ کرنے کے بعد اللہ سے کئے عہد کو توڑديتے ہيں اور جس (رشتہ) کو جوڑنے کا حکم ديا ہے اسے کاٹ ديتے ہيں اور زمين ميں فساد برپا کرتے ہيں ان کے اوپر اللہ کي لعنت اور ان کے لئے برا ٹھکانہ ہے ' (رعد:25)

* -امانت ميں خيانت:

' اللہ تم کو حکم ديتا ہے کہ امانت کو صاحب امانت تک پہنچادو- ' (نسائ:58)

 

 تحرير: جناب محمد باقر رضا  

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

رمضان مبارک سارے مہينوں سے افضل ہے