• صارفین کی تعداد :
  • 3732
  • 8/5/2012
  • تاريخ :

ميراث، ہبہ و وصيت اور خواتين        

میراث، ہبہ و وصیت اور خواتین

 اسلام سے پہلے دنيا کے اکثر مذاہب ميں خواتين کا ميراث ميں کوئي حق نہيں سمجھا جاتا تھا، عربوں کا خيال تھاکہ جو لوگ قبيلہ کي مدافعت کر سکتے ہوں اور لڑنے کي صلاحيت رکھتے ہوں، وہي ميراث پانے کے حقدار ہيں، يہوديوں ميں سارا ترکہ پہلوٹھے کا حق مانا جاتا تھا، ہندوۆں کے يہاں بھي عورت کا ميراث ميں کوئي حصہ نہيں ہوتا تھا، يہاں تک کہ انيسويں صدي تک يورپ ميں عورتوں کو ميراث ميں کوئي حصہ نہيں ملتا تھا، اسلام نے جہاں مرد رشتہ داروں کو حصہ دار بنايا، وہيں ان کي ہم درجہ خواتين کو بھي ميراث کا مستحق قرار ديا، والد کي طرح والدہ کو، بيٹے کي طرح بيٹي کو، بھائي کي طرح بہن کو، شوہر کي طرح بيوي کو وغيرہ، آج پوري دنيا ميں خواتين کو جو ترکہ کا مستحق مانا جاتا ہے، وہ دراصل شريعت اسلامي کا عطيہ ہے-

حق ميراث اور خواتين  

  اسلام کے قانونِ ميراث ميں جن رشتہ داروں کو مقدم رکھا گيا ہے، جو کسي حال ميں ترکہ سے محروم نہيں ہو سکتے، وہ چھ ہيں : جن ميں تين مرد ہيں :باپ، بيٹا، اور شوہر، تين عورتيں ہيں : ماں، بيٹي اور بيوي، اس کے علاوہ خصوصي اہميت ان حقداروں کو حاصل ہے، جن کو ’ ذوي الفروض ‘ کہا جاتا ہے، يعني وہ اعزہ جن کے حصے مقرر کر ديئے گئے ہيں، ان ميں مردوں سے زيادہ تعداد خاتون رشتہ داروں کي ہے، اس لئے کہ مرد چھ حالتوں ميں ذوي الفروض ميں شمار کيا جاتا ہے، اور عورت 17 حالتوں ميں اس حيثيت سے ميراث کي مستحق ہوتي ہے، چنانچہ يہاں حصوں کا تناسب اور ان کي مستحق خواتين کا ذکر کيا جاتا ہے  :

   ( الف )  دو تہائي  :

 

١

دو يا دو سے زيادہ بيٹياں

٢

دو يا دو سے زيادہ پوتياں

٣

دو يا دو سے زيادہ سگي بہن

٤

 دو يا دو سے زيادہ باپ شريک بہن

 

( ب )  نصف  :

 

١

ايک بيٹي

٢

ايک پوتي

٣

ايک سگي بہن

٤

ايک باپ شريک بہن

 

( ج )  ايک تہائي  :

 

١

ماں

٢

ماں شريک بہن

 

( د )  چھٹا حصہ  :

 

١

ماں

٢ دادی
٣ پوتی ٤

باپ شريک بہن

٥

ماں شريک بہن

٦ -

 

          ( ہ )  چوتھائي  :

(1)  بيوي

          ( و )  آٹھواں حصہ  :

(1)  بيوي

          اس ميں يہ بات قابل توجہ ہے کہ متعينہ حصوں ميں سب سے زيادہ دو تہائي اور اس کے بعد نصف ہے، دو تہائي حصہ کا مردوں ميں سے کوئي مستحق نہيں ہوتا اور نصف کا مستحق بھي مردوں ميں صرف شوہر ہو سکتا ہے، جب کہ ميت کي اولاد نہ رہي ہو-

          مقدار کے اعتبار سے خواتين کے حصہ پانے کي چار حالتيں ہوتي ہيں  :

          (1)     جب عورت کا حصہ اپنے ہم درجہ رشتہ دار مرد کے مقابلہ آدھا ہوتا ہے-

          (2)     جب مرد اور عورت کا حصہ برابر ہوتا ہے-

          (3)     جب عورت کا حصہ مرد سے زيادہ ہوتا ہے-

          (4)     جب عورت وارث ہوتي ہے اور مرد وارث نہيں ہوتا ہے-

تحرير: مولانا خالد سيف الله رحماني

شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

اسلام ميں عورت اور مرد ميں مساوات ( حصّہ دوّم )