• صارفین کی تعداد :
  • 2718
  • 8/4/2012
  • تاريخ :

احاديث ميں «مفتاح = چابي» کا لفظ مسلسل دہرايا گيا ہے

مدینہ

مذکورہ  تمام احاديث ميں دروازہ بند کرنے کے لئے مختلف اصطلاحات سے استفادہ کيا گيا ہے جيسي : " اغلاق الباب" ، "ردّ الباب" اور "اجافة الباب" اور ان سب کا مفہوم ايک ہي ہے يعني دروازہ بند کرنا؛ اور پردے يا ديگر چيزوں کے لئے ان الفاظ سے استفادہ نہيں کيا جاتا-

* متعدد احاديث ميں – جن ميں سے 21 حديثين علامہ جعفر مرتضي عاملي نے نقل کي ہيں – دروازے پر دستک دينے کے لئے "دق الباب" ، "طرق الباب" ، "ضرب الباب" اور "قرع الباب" جيسي عبارتيں استعمال ہوئي ہيں اور اس دروازے پر کوئي دستک نہيں ديتا جو پردے پر مشتمل ہو؛ مثال کے طور پر:

رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے «ابو الهيثم بن التيهان» کے گھر جانے سے متعلق حديث ميں آيا ہے کہ: «پس ہم نے گھر کے دروازے پر دستک دي- ايک عورت نے کہا: کون دستک دے رہا ہے؟ عمر ني کہا: يہ رسول اللہ (ص) ہيں---»

(کنزالعمال ـ ج7 ـ ص194 )

*علامہ جعفر مرتضي نے اپني کتاب مأساة الزہرا (ع) ميں 43 حديثيں نقل کي ہيں جن کے عنوانات يوں ہيں: "الاجابة من وراء الباب = دروازے کے اس پار سے جواب" ، "خلف الباب= دروازے کے پشت پر" ، "حرک الباب = دروازے کو حرکت دينا" ، "وضع اليد علي الباب فدفعہ = دروازہ کو ہاتھ سے دہکا دينا اور اسے کھول دينا" ، "فتح الباب= دروازہ کھول دينا" ، "الباب المقفل = مقفل دروازہ" اور "کسر الباب = دروازدہ توڑنا"- ان ساري تعبيرات کا پردے اور پردے جيسي کسي دوسري چيز سے کوئي تعلق نہيں ہے-

* شيعہ اور سني تواريخ ميں مذکور ہے کہ ہجرت نبي (ص) سے قبل اہل يثرب (يا اہل مدينة النبي) مسلسل خانہ جنگي کا شکار تھے اور ان کے درميان خونريز جنگيں جاري تھيں؛ يہاں تک کہ مشہور تھا کہ «اہل يثرب راتوں کو بھي ہتھيار اپنے آپ سے دور نہيں کيا کرتے تھے»- (اعلام الوري ـ ص55 و بحارالانوار ـ ج19ـ ص 8 تا 10) تا آنکہ خداوند متعال نے پيغمبر رحمت (ص) بھيج کر ان پر احسان کيا اور ان کے درميان اخوت و برادري کا دور دورہ ہوا اور اسلام ان کے لئے امن و سلامتي کا تحفہ ساتھ لايا- جبکہ اس سے پہلے وہ لوگ جو اپني پڑوسيوں سے مسلسل خطرہ محسوس کرتے تھے اور ہر وقت جنگ و جدل کي حالت ميں تھے حتي کہ نيند کي حالت ميں بھي شمشير ساتھ رکھا کرتے تھے- ايسي صورت حال ميں کيا عقل و منطق قبول کرسکتي ہے کہ جن گھروں ميں وہ رہتے تھے اور اپنے مال و ناموس کو وہاں رکھتے تھے ان کے لئے دروازہ نہ لگائيں اور پردہ لٹکا کر مطمئن ہوجائيں؟ عقل نہيں مانتي- يہ امر ہرگز معقول نہيں ہے اور ان گھروں کا دروازہ ہونا چاہئے تھا-

* ديگر احاديث سي ثابت ہوتا ہے کہ مدينہ کے گھروں کے نہ صرف دروازے تھے بلکہ ان دروازوں کے تالے بھي تھے اور چابياں بھي تھيں اور احاديث ميں «مفتاح = چابي» کا لفظ مسلسل دہرايا گيا ہے-

«دکين بن سعيد المزني» سے نقل ہے کہ: ايک دفعہ ہم پيغمبر (ص) کي خدمت ميں حاضر ہوئے اور آپ (ص) سے کھانا کھلانے کي درخواست کي- آپ (ص) نے فرمايا: «اے عمر! جاۆ انہيں کھانا لادو»- فارتقي بنا الي علية ، فأخذ المفتاح من حجزته ،ففتح ---»

(سنن ابي داود ـ ج4 ـ ص361 و مسند احمد ـ ج4 ـ ص174)

علامہ جعفر مرتضي عاملي

تلخيص: ع- حسيني عارف

ترجمہ: ف-ح-مہدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

 ليلۃ الرغائب؛ آرزۆوں کي شب اور دعا و مناجات کي شب

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا