• صارفین کی تعداد :
  • 4486
  • 7/30/2012
  • تاريخ :

امام حسن عليہ السلام اور افسانۂ طلاق‏ اور اسناد کا جائزه

امام حسن عليہ السلام

چنانچہ فقہ اہل بيت (ع) کے تحت ايک ہي مجلس ميں سو بار طلاق بھي ايک ہي طلاق سمجھي جاتي ہے اور مرد طلاق کے بعد عدت کے ايام ميں بيوي سے رجوع کرسکتا ہے يا پھر عدت کي مدت ختم ہونے کے بعد اس کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے لہذا اگر ابن عساکر کا يہ افسانہ درست بھي مان ليا جائے تو امام (ع) کے پاس عدت کے دنوں ميں رجوع يا عدت کے بعد نکاح کا امکان موجود تھا جو اگر ہميں معلوم ہے تو امام (ع) کو بطريق اولي معلوم تھا چنانچہ رونے دھونے اور نادم ہونے کي ضرورت ہي نہيں تھي-

اور ہاں! تين طلاقيں رسول خدا (ص) کے حکم کے مطابق کچھ يوں ہيں کہ مرد اپني بيوي کو طلاق ديتا ہے اور رجوع کرتا ہے، پھر طلاق دے کر رجوع کرتا ہے اور تيسري مرتبہ طلا ‍ ق ديتا ہے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہيں کرسکتا حتي کہ کوئي اور شخص اس سے شادي کرلے اور اگر اس نے اس کو طلاق دي تو پہلا شوہر اس سے نکاح کرسکے گا اور يہ عمل تين مرتبہ جاري رہ سکتا ہے جس کے بعد وہ عورت اس پر حرام ہوجاتي ہے-

ابن عساکرکي روايت کي صورت حال اتني مضطرب ہے اور اس پر اتنے اعتراضات وارد ہيں کہ اس کي سند کا جائزہ لينے کي ضرورت ہي نہيں ہے-

 اسناد کا جائزہ

* اکثر مۆرخين نے اس تاريخي واقعے کو سند و ثبوت ذکر کئے بغير نقل کيا ہے اور اس کو "ابوالحسن مدائنى"،  "محمد بن عمر واقدى" اور "ابوطالب مكّى"-

دونوں صورتوں ميں قابل جرح اور حامل اشکال ہے کيونکہ: ابن عساکر لکھتا ہے: و روى‏ محمد بن سيرين --- اور محمد بن سيرين نے روايت کي ہے کہ---؛ ميرخواند شافعى لکھتا ہے: "نقل است كه--- نقل ہے کہ ---" ؛ سيوطى کہتا ہے کہ: "كان الحسن يتزوج--- امام حسن (ع) شادياں کرتي تھے---"- "ابوطالب مكّى لکھتا ہے: "انّه تزوّج--- بتحقيق کے اس نے شادي کي---"؛ "سبط بن الجوزى نے لکھا ہے: "و فى رواية انّه تزوّج--- اور روايت ہے کہ بتحقيق انھوں نے شادي کي---"؛ ابوالحسن مدائنى نے لکھا ہے: "كان الحسن كثيرالتزويج--- حسن (ع) کثيرالتزويج تھے---"-

يہ تمام روايتيں مرسل ہيں اور ان کا سلسلۂ سند ذکر نہيں ہوا ہے- اور جن لوگوں نے ان تين مۆرخين پر اعتماد کيا ہے ان سے بس يہي کہنا چاہئے کہ: يہ تينوں مۆرخين بھي امام حسن عليہ السلام کے زمانے ميں نہ تھے اور ان تينوں نے بھي تمہاري طرح يہ روايتيں سلسلہ سند ذکر کئے بغير نقل کي ہيں جس طرح کے ہم نے مدائنى اور مكّى سے نقل کيا چنانچہ ہم يہاں کہتے ہيں کہ اس طرح کے ناقابل اعتماد راويوں کي بے اعتمادي اور بے ثبوتي کو ديکھ کر اعلان کيا جاتا ہے کہ ان لوگوں کي طرف سے امام حسن عليہ السلام کي شاديوں، زوجات کي تعداد، طلاقوں، تزويج و طلاق وغيرہ وغيرہ کے بارے ميں منقولہ ہر قسم کي روايات جھوٹي اور بے بنياد ہيں-

* ارباب جرح و تعديل ميں سے بہت سوں نے ان تين راويوں کو کلي طور پر ناقابل اعتماد و اعتبار قرار ديا ہے- جن لوگوں نے ان افراد کو ناقابل استناد و اعتماد قرار ديا ہے ان ميں الذہبى، العسقلانى، ابن الجوزى‏، عماد الحنبلى‏، الرازى‏، ابن الاثير الجزرى، زركلى‏، علامه امينى‏، سيدمحسن الامين‏، هاشم معروف الحسنى وغيرہ  کي طرف اشارہ کيا جاسکتا ہے-

تحرير:  ف-ح-مہدوي

شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

امام حسن عليہ السلام اور تہمت طلاق