• صارفین کی تعداد :
  • 1437
  • 7/28/2012
  • تاريخ :

عالم اور صحبت امراء

فیہ ما فیہ

علماء ميں سے بدتریں عالم وہ ہے جو امراء کي ملاقات کو جائے اور امراء ميں سے بہترين امير وہ ہے جو عالم کي زيارت کو جائے- بہتر ہے وہ امير جو فقير کے دروازہ پر ہو اور بدتر ہے وہ فقير جو امير کے دروازہ پر ہو-

لوگوں نے ارشاد نبوي کا يہ مطلب ليا ہے کہ عالم کو کسي امير کي زيارت کے ليے نہيں جانا چاہيے، تا کہ اس کا شمار بدترين علماء ميں نہ ہو- اصل مطلب وہ نہيں جو يہ لوگ سمجھے ہيں، بلکہ اس کے معني يہ ہيں کہ عالموں ميں سے بدترين عالم وہ ہے جو امراء سے مدد لے، جس کي بہتري اور استحکام امراء کے توسط سے ہو اور جو ان کے ڈر سے اچھے کام کرے- در حقيقت ايسے آدمي پہلے اس نيت سے علم حاصل کرتا ہے کہ امراء اسے صلہ ديں- اس کي عزت کريں اور اسے منصب عطا کريں- پس اس نے محض امراء کي وجہ سے اپنے آپ کو بہتر بنايا اور جہالت کو چھوڑ کر علم حاصل کيا- جب وہ عالم بن گيا تو امراء کے خوف اور تحکم سے مۆدب ہوا- وہ کامياب ہو يا ناکام، ان کے موافق طريق پر چلتا ہے- ظاہر ہے کہ جب عالم کي يہ کيفيت ہو تو خواہ امير اس کي زيارت کو جائے اور خواہ وہ امير کي زيارت کرے، ہر حالت ميں زائر عالم ہي ٹھہرتا ہے- اور امير مزدور رہتا ہے- اس کے مقابلہ ميں اگر عالم نے امراء کي وجہ سے علم حاصل نہيں کيا، بلکہ اوّل سے آخر تک اس نے تحصيل علم خُدا کي خاطر کي اور اس کا طريق کار اور جدّ و جہد نيکي کے ليے تھي، کہ يہ اس کي طبيعت کا تقاضا تھا- اور وہ علم کے بغير رہ نہيں سکتا تھا، جس طرح مچھلي پاني کے بغير زندہ نہيں رہ سکتي- تو ايسے عالم کي راہنمائي اور تاديب عقل کرتي ہے، بلکہ اس کے زمانہ ميں نہيں رہ سکتي- تو ايسے عالم کي راہنمائي اور تاديب عقل کرتي ہے، بلکہ اس کے زمانہ ميں ساري دُنيا اس کي ہيبت سے ادب کرتي ہے اور اس کے سايہ اور پرتو تک سے مدد چاہتي ہے- خواہ وہ اس سے آگاہ ہو يا نہ ہو- ايسا عالم اگر امير کے پاس جائے تو امير زائر ہے اور وہ مزدور- کيونکہ ہر حالت ميں امير ہي اس سے کچھ ليتا اور فائدہ اٹھاتا ہے اور مدد حاصل کرتا ہے- اور وہ علام اس امر سے بے نياز ہے- بالکل ايسے ہي جيسے آفتاب نور بخشنے والا ہے- اس کا کلام عطا اور بخشش ہے- اس کا عام طريقہ ہے کہ وہ پتھروں کو لعب ياقوت بناتا ہے اور مٹي کے پہاڑوں کو تانبا، سونا، چاندي، لوہا بنا ديتا ہے- مٹي کو سر سبز اور تازہ کرتا ہے- اور درختوں کو قسم قسم کے پھل بخشتا ہے- آفتاب کا پيشہ عطا ہے- وہ بخشش کرتا ہے خود کچھ قبول نہيں کرتا- چنانچہ ايک عربي ضرب المثل ہے:

ہم نے دينا سيکھا ہے، ہم نے لينا نہيں سيکھا-

مولانا عبدالماجد والے نسخے ميں اس سے آگے يوں ہے:

خدا تعالي نے فرمايا اپنے علم، طاقت اور اختيارات پر تکيہ نہ کرو- مجھے ہي علام قوي اور قادر سمجھو، تا کہ تمہيں غير سے مدد مانگنے اور اميروں اور بادشاہوں کے سامنے التجا کرنے سے بچاۆ ں- کہو:

ہم تيري عبادت کرتے ہيں اور تجھ ہي سے مدد چاہتے ہيں-

ملفوظات رومي

فيہ ما فيہ

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

 مابه فلک ميرويم عزم تماشا کراست