• صارفین کی تعداد :
  • 1551
  • 7/9/2012
  • تاريخ :

دل مرا سوزِ  نہاں سے بے محابا جل گيا

آتش خاموش کے مانند گويا جل گيا

 مرزا غالب دہلوی

دل مرا سوزِ  نہاں سے بے محابا جل گيا

آتش خاموش کے مانند گويا جل گيا

يعني چپکے چپکے کس طرح جلا کيا کہ کسي کو خبر نہ ہوئي ، ’ گويا ‘ کا لفظ خاموش کي مناسبت سے ہے ،   ’ مانند ‘ کا لفظ بول چال ميں نہيں ہے ، مگر شعراء نظم کيا کرتے ہيں -

دل ميں ذوقِ  وصل و ياد يار تک باقي نہيں

آگ اس گھر ميں لگي ايسي کہ جو تھا جل گيا

يعني رشک کي آگ ايسي تھي کہ معشوق کو دل سے بھلاديا اور اس کا غير سے ملنا ديکھ کر ذوقِ  وصل جاتا رہا - گھر سے دل مراد ہے اور آگ سے رشکِ رقيب -

ميں عدم سے بھي پرے ہوں ورنہ غافل بارہا

ميري آہِ  آتشيں سے بالِ  عنقا جل گيا

مصنف کي غرض يہ ہے کہ ميري نيستي و فنا يہاں تک پہنچي کہ اب ميں عدم ميں بھي نہيں ہوں اور اس سے آگے نکل گيا ہوں ، ورنہ جب تک ميں عدم ميں تھا ، جب تک ميري آہ سے عنقا کا شہپر اکثر جل گيا ہے ، عنقا ايک طائر معدوم کو کہتے ہيں اور جب وہ معدوم ہوا تو وہ بھي عدم ميں ہوا اور ايک ہي ميدان ميں آہِ  آتشيں و بالِ  عنقا کا اجتماع ہوا ، اسي سبب سے آہ سے شہپر عنقا جل  گيا ، ليکن مصنف کا يہ کہنا کہ ميں عدم سے بھي باہر ہوں ، اس کا حاصل يہ ہوتا ہے کہ ميں نہ موجود ہوں ، نہ معدوم ہوں اور نقيضين مجھ سے مرتفع ہيں ، شايد ايسے ہي اشعار پر دلي ميں لوگ کہا کرتے تھے کہ غالب شعر بے معني کہا کرتے ہيں اور اُس کے جواب ميں مصنف نے يہ شعر کہا  

نہ ستائش کي تمنا نہ صلہ کي پرواہ

گر نہيں ہيں مرے اشعار ميں معني نہ سہي

پرے کا لفظ اب متروک ہے ، لکھنؤ ميں ناسخ کے زمانہ سے روزمرہ ميں عوام الناس کے بھي نہيں ہے ، ليکن دلي ميں ابھي تک بولا جاتا ہے اور نظم ميں بھي لاتے ہيں ، ميں نے اس امر ميں نواب مرزا خاں صاحب داغ سے تحقيق چاہي تھي ، اُنھوں نے جواب ديا کہ ميں نے آپ لوگوں کي خاطر سے ( يعني لکھنؤ والوں کي خاطر سے ) اس لفظ کو چھوڑ ديا ، مگر يہ کہا کہ مومن خاں صاحب کے اس شعر ميں  

چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منھ

اے شبِ ہجر تيرا کالا منھ

اگر پرے کي جگہ اُدھر کہيں تو برا معلوم ہوتا ہے ، ميں نے کہا کہ ’ پرے ہٹ ‘ بندھا ہوا محاورہ ہے ، اس ميں ’ پرے ‘ کي جگہ ‘ اُدھر ‘ کہنا محاورہ ميں تصرف کرنا ہے ، اس سبب سے برا معلوم ہوتا ہے ، ورنہ پہلے جس محل پر ’ چل پرے ہٹ ‘ بولتے تھے اب اُسي محل پر دور بھي محاورہ ہو گيا ہے ، اس توجيہ کو پسند کيا اور مصرع کو پڑھ کر الفاظ کي نشست کو غور سے ديکھا  :  ’ دور بھي ہو مجھے نہ دکھلا منھ ‘ اور تحسين کي -

عرض کيجئے جوہر انديشہ کي گرمي کہاں

کچھ خيال آيا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گيا

يعني يہ کہاں ممکن ہے کہ اپني طبيعت کي گرمي ظاہر کرسکوں فقط دشت نوردي کا ذرا خيال کيا کہ صحرا ميں آگ لگ اُٹھي اور يہ مبالغہ غير علوي ہے کہ طبيعت ميں ايسي گرمي ہو کہ جس چيز کا خيال آئے وہ چيز جل جائے عرض کو لوگ جوہر کے ضلع کا لفظ سمجھتے ہيں حالاں کہ جوہر کے مناسبات ميں سے عرض بہ تحريک ہے نہ بہ سکون -

دل نہيں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کي بہار

اس چراغاں کا کروں کيا کارفرما جل گيا

دل کو کارفرما بنايا ہے اور داغوں کو چراغاں لفظ چراغاں کو چراغ کي جمع نہ سمجھنا چاہئے -

ميں ہوں اور افسردگي کي آرزو غالب کہ دل

ديکھ کر طرزِ  تپاک اہل دُنيا جل گيا

طرزِ  تپاک سے تپاک ظاہري و نفاق باطني مراد ہے اور افسردگي اور جلنا اس کے مناسبات سے ہيں -

شوق ، ہر رنگ رقيبِ سر و ساماں نکلا

قيس تصوير کے پردہ ميں بھي عرياں نکلا

يعني مجنوں کي تصوير بھي کھنچتي ہے تو ننگي ہي کھنچتي ہے ، اس حال ميں بھي عشق دُشمن سر و سامان  ہے ، شوق سے مراد عشق ہے ، ہر رنگ کے معني ہر حال ميں اور ہر طرح سے اگر يوں کہتے کہ شوق ہر طرح رقيب سر و ساماں نکلا جب بھي مصرع موزوں تھا ، ليکن تصوير کے مناسبات ميں سے رنگ کو سمجھ کر ہر رنگ کہا اور ہر طرح و بے طرح کو ترک کيا ، مناسبات کے لئے محاورہ کا لفظ چھوڑ دينا اچھا نہيں اور رقيب کے معني دُشمن کے لئے ہيں -

زخم نے داد نہ دي تنگيء دل کي يارب

تير بھي سينۂ بسمل سے پر افشاں نکلا

يعني زخم دل نے بھي کچھ تنگي دل کي تدبير نہ کي اور زخم سے بھي دلِ  تنگي کي شکايت دفع نہ ہوئي کہ وہي تير جس سے زخم لگا وہ ميري تنگيءدل سے ايسا سراسيمہ ہوا کہ پھڑکتا ہوا نکلا تير کے پر ہوتے ہيں اور اُڑتا ہے ، اس سبب سے پر افشاني جو کہ صفتِ مرغ ہے ، تير کے لئے بہت مناسب ہے ، مصنف مرحوم لکھتے ہيں يہ ايک بات ميں نے اپني طبيعت سے نئي نکالي ہے ، جيسا کہ اس شعر ميں  

نہيں ذريعۂ راحت جراحت پيکاں

وہ زخم تيغ ہے جس کو دل کشا کہئے

يعني زخم تير کي توہين بسبب ايک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کي تحسين بسبب ايک طاق سا کھل جانے کے -

بوئے گل نالۂ دل دودِ  چراغِ  محفل

جو تري بزم سے نکلا سو پريشاں نکلا

يعني تيري بزم سے نکلنا پريشاني کا باعث ہے ، پہلے مصرع ميں سے فعل اور حرفِ ترديد محذوف ہے ، يعني پھولوں کي مہک ہو يا شمعوں کا دُھواں ہو يا عشاق کي فغاں ہو -

دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ  درد

کام ياروں کا بقدرِ لب و دنداں نکلا

يعني جس ميں جتني قابليت تھي اُس نے اُسي قدر مجھ سے لذتِ درد کو حاصل کيا ، ورنہ يہاں کچھ کمي نہ تھي ، کام کا لفظ لب و دنداں کے ضلع کاہے -

تھي نو آموز فنا ہمت دُشوار پسند

سخت مشکل ہے کہ يہ کام بھي آساں نکلا

اے ہمت تو باوجود يہ کہ ابھي نو آموز فنا ہے ، کس آساني سے مرحلۂ فنا کو طے کرگئي ، ہمت کو دُشوار پسند کہہ کر يہ مطلب ظاہر کرنا منظور ہے کہ ميري ہمت خوف و خطر ميں مبتلا ہونے کو لذت سمجھتي ہے يہ کام اشارہ ہے فنا کي طرف يعني ہم جانتے تھے کہ جان دينا بہت مشکل کام ہے مگر افسوس ہے کہ وہ بھي آساں نکلا -

دل ميں پھر گريہ نے اک شور اُٹھايا غالب

آہ ! جو قطرہ نہ نکلا ، تھا سو طوفاں نکلا

يعني جس گريہ پر ميرا ضبط ايسا غالب تھا کہ ميں اُسے قطرہ سے کم سمجھتا تھا ، اب وہ طوفان بن کر مجھ پر غالب ہو گيا - دوسرا پہلو يہ ہے کہ آنسو کا جو قطرہ کہ آنکھ سے نکلا نہ تھا وہ اب طوفان ہو گيا -

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

سودا ايک غزل گو شاعرکي حيثيت سے