• صارفین کی تعداد :
  • 1156
  • 7/9/2012
  • تاريخ :

جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغِ  جگر ہديہ

مبارکباد اسد غم خوارِ  جانِ  دردمند آيا

 مرزا غالب دہلوی

جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغِ  جگر ہديہ

مبارکباد اسد غم خوارِ  جانِ  دردمند آيا

مشہور ہے کہ الماس کے کھالينے سے دل و جگر زخمي ہو جاتے ہيں تو جو شخص کہ زخم دل و جگر کا شائق ہے ، الماس اُس کے لئے ارمغاں ہے ، يہ سارا شعر مبارکبادي کا مضمون ہے ، کہتا ہے کہ ايسي ايسي نعمتيں اور ہديے حسن و عشق نے مجھے دئيے ، وہ ميرا غم خوار ہے اور يہ بھي احتمال ہے کہ غم خوار سے ناصح مراد ہے اور مبارکباد تشنيع کي راہ سے ہے -

جز قيس اور کوئي نہ آيا بروئے کار

صحرا مگر بہ تنگي چشم حسود تھا

يعني ايک قيس کا نام تو صحرا نوردي ميں ہو گيا ، اس کے سوا کسي اور کي بہتري صحرائے حاسدِ چشم سے نہ ديکھي گئي ، گويا کہ صحرا باوجود وسعتِ چشم حاسد کي سي تنگي رکھتا ہے ، مگر يہاں شايد کے معني رکھتا ہے -

آشفتگي نے نقش سويدا کيا دُرست

ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمايہ دود تھا

داغ سويدائے دل سے ہميشہ دود آہ اُٹھ اُٹھ کر پھيلا کرتا ہے ، اس سے ظاہر ہوا کہ سويدائے دل کي حلقت آشفتگي سے ہے ، معنوي تعقيد اس شعر ميں يہ ہو گئي ہے کہ پريشاني کي جگہ آشفتگي کہہ گئے ہيں ، غرض يہ تھي کہ سويدائے دل سے دود پريشان اُٹھا کرتا ہے اور اس کا سرمايہ و حاصل جو کچھ ہے يہي دود آہ ہے جو ايک پريشان چيز ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ يہ نقش سويدا خدا نے محض پريشاني ہي سے بنايا ہے اور يہ داغ دود آہ سے پيدا ہوا ہے ، جبھي تو اس سے ہميشہ دُھواں اُٹھا کرتا ہے -

تھا خواب ميں خيال کو تجھ سے معاملہ

جب آنکھ کھل گئي نہ زياں تھا نہ سود تھا

يعني زمانہ عيش اس طرح گذر گيا جيسے خواب ديکھا تھا ، نہ اب لطفِ وصل ہے ، نہ صدمۂ ہجر کا مزہ ہے ، يوں سمجھو کہ مصنف نے گويا اس شعر کو يوں کہا ہے  :  ’’ زمانہ عيش نہ تھا بلکہ تھا خواب ميں خيال کو الخ ‘‘ -

پڑھتا ہوں مکتبِ غم دل ميں سبق ہنوز

ليکن يہي کہ رفت گيا اور بود تھا

غم وہ کيفيتِ نفساني ہے جو مطلوب کے فوت ہو جانے سے پيدا ہو ، مطلب يہ ہے کہ مکتبِ غم ميں ميرا سبق يہ ہے کہ رفت گيا اور بود تھا ، يعني زمانہ عيش کبھي تھا اور اب جاتا  رہا -

ڈھانپا کفن نے داغِ  عيوب برہنگي

ميں ورنہ ہر لباس ميں ننگِ وجود تھا

يعني مرجانے ہي سے عيبِ برہنگي مٹا نہيں تو ہر لباس ميں ميں ننگِ ہستي و وجود تھا ، ننگِ وجود ہونے کو برہنگي سے تعبير کيا ہے ، فقط لفظ کا متشابہ مصنف کے ذہن کو اُدھر لے گيا-

تيشہ بغير مر نہ سکا کوہ کن اسد

سرگشتۂ خمار رسوم و قيود تھا

کوہ کن پر طعن ہے کہ رسم و راہ کي پابندي جو ديوانگي و آزادي کے خلاف ہے ، اس قدر اس کو تھي کہ جب تيشہ سے سر پھوڑا تو کہيں مرا ، اگر نشہ عشق کامل ہوتا تو بغير سر پھوڑے مرگيا ہوتا ، خمارِ  نشہ اُترنے سے جو بے کيفيتي اور بے مزگي ہوتي ہے ، اُسے کہتے ہيں رسوم و قيود کو بے مزہ و   بے لطف ظاہر کرنے کے لئے اُسے خمار سے تشبيہ دي ہے -

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

حضرت امام زمان(عج) کے مدح ميں