• صارفین کی تعداد :
  • 1406
  • 7/9/2012
  • تاريخ :

نقش فريادي ہے کس کي شوخي تحرير کا

کاغذي ہے پيرہن ہر پيکرِ تصوير کا

مرزا غالب دہلوی

نقش فريادي ہے کس کي شوخي تحرير کا

کاغذي ہے پيرہن ہر پيکرِ تصوير کا

مصنف مرحوم ايک خط ميں خود اس مطلع کے معني بيان کرتے ہيں کہتے ہيں ، ايران ميں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جيسے مشعل دن کو جلانا يا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خيال کرتا ہے کہ نقش کس کي شوخي تحرير کا فريادي ہے کہ جو صورتِ تصوير ہے ، اُس کا پيرہن کاغذي ہے ، يعني ہستي اگرچہ مثل ہستي تصاوير اعتبار محض ہو موجب رنج و ملال و آزار ہے ، غرض مصنف کي يہ ہے کہ ہستي ميں مبداء حقيقي سے جدائي و غيريت ہو جاتي ہے اور اس معشوق کي مفارقت ايسي شاق ہے کہ نقش تصوير تک اُس کا فريادي ہے اور پھر تصوير کي ہستي کوئي ہستي نہيں ، مگر فنا في اللہ ہونے کي اُسے بھي آرزو ہے کہ اپني ہستي سے نالاں ہے ، کاغذي پيرہن فريادي سے کنايہ فارسي ميں بھي ہے اور اُردو ميں ، مير ممنون کے کلام ميں اور مومن خاں کے کلام ميں بھي ميں نے ديکھا ہے ، مگر مصنف کا يہ کہنا کہ ايران ميں رسم ہے کہ دادخواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، ميں نے يہ ذکر نہ کہيں ديکھا نہ سنا ، اس شعر ميں جب تک کوئي ايسا لفظ نہ ہو جس سے فنا في اللہ ہونے کا شوق اور ہستي اعتباري سے نفرت ظاہر ہو اس وقت تک اسے بامعني نہيں کہہ سکتے ، کوئي جان بوجھ کر تو بے معني کہتا نہيں يہي ہوتا ہے کہ وزن و قافيہ کي تنگي سے بعض بعض ضروري لفظوں کي گنجائش نہ ہوئي اور شاعر سمجھا کہ مطلب ادا ہو گيا تو جتنے معني کہ شاعر کے ذہن ميں رہ گئے ، اسي کو المعني في بطن الشاعر کہنا چاہئے ، اس شعر ميں مصنف کي غرض يہ تھي کہ نقش تصوير فريادي ہے ، ہستي بے اعتبار و بے توقير کا اور يہي سبب ہے کاغذي پيرہن ہونے کا ہستي بے اعتبار کي گنجائش نہ ہوسکي اس سبب سے کہ قافيہ مزاحم تھا اور مقصود تھا مطلع کہنا ہستي کے بدلے شوخي تحرير کہہ ديا اور اس سے کوئي قرينہ ہستي کے حذف پر نہيں پيدا ہوا آخر خود ان کے منہ پر لوگوں نے کہہ ديا کہ شعر بے معني ہے -

کاوِ  کاوِ  سخت جاني ہائے تنہائي نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شير کا

کاوِ  کاوِ  کھودنا اور کريدنا مطلب يہ ہے کہ تنہائي و فراق ميں سخت جاني کے چلتے اور دم نہ نکلنے کے ہاتھوں جيسي جيسي کاوشيں اور کاہشيں مجھ پر گذر جاتي ہيں اُسے کچھ نہ پوچھ رات کا کاٹنا اور صبح کرنا جوئے شير کے لانے سے کم نہيں يعني جس طرح جوئے شير لانا فرہاد کے لئے دُشوار کام تھا

 اسي طرح صبح کرنا مجھے بہت ہي دُشوار ہے - اس شعر ميں شاعر نے اپنے تئيں کوہکن اور اپني سخت جاني شب ہجر کو کوہ اور سپيدۂ صبح کو جوئے شير سے تشبيہ دي ہے -

جذبۂ بے اختيارِ  شوق ديکھا چاہئے

سينۂ شمشير سے باہر ہے دم شمشير کا

دم کے معني سانس اور باڑھ اور يہاں دونوں معني تعلق و مناسبت رکھتے ہيں کہ سينۂ شمشير کہا ہے ، مطلب يہ ہے کہ ميرے اشتياق قتل ميں ايسا جذب و کشش ہے کہ تلوار کے سينہ سے اس کا دم باہر کھينچ آيا -

آگہي دامِ  شنيدن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقرير کا

يعني ميري تقرير کو جس قدر جي چاہے سنو ، اُس کے مطلب کو پہنچنا محال ہے ، اگر شوق آگہي نے صياد بن کر شنيدن کا جال بچھايا بھي تو کيا ، ميري تقرير کا مطلب طائر عنقا ہے جو کبھي اسير دام نہيں ہونے کا غرض يہ ہے کہ ميرے اشعار سراسر اسرار ہيں -

بسکہ ہوں غالب اسيري ميں بھي آتش زيرپا

موئے آتش ديدہ ہے حلقہ مري زنجير کا

مضطرب اور بے تاب کو آتش زيرپا کہتے ہيں اور آتش جب ديرپا ہوئي تو زنجيرپا گويا موئے آتش ديدہ ہے اور يہ معلوم ہے کہ بال آگ کو ديکھ کر پيچ دار ہو جاتا ہے اور حلقۂ زنجير کي سي ہيئت پيدا کرتا ہے -

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

اقبال کا ذہني و فکري ارتقاء