• صارفین کی تعداد :
  • 1815
  • 7/9/2012
  • تاريخ :

مولانا شعر کو ہنر مندي کاذريعہ نہيں بناتے

مولانا رومی

وہ شعر کو ہنر مندي کاذريعہ نہيں بناتے- وہ تو ان کے ليے آئينہ روح ہے - وہ زندگي سے نااميد نہيں ہوتے - اميد ہميشہ ان کے عشق ميں موجزن رہتي ہے -ان کا ديوان سبزہ زار عشق اور لالہ محبت ہے- وہ نور مطلق کے نزديک ہو جاتے ہيں اور اپنے آپ کو سراسر عشق ، سراسر عقل اور سراسر جان خيال کرتے ہيں :

نہ ابرم من نہ برقم من نہ ماھم من نہ چرخم من

ھمہ عشقم ھمہ عقلم ھمہ جانم بہ جانانہ

شعر گوئي سے ان کا مقصد يہي ہے کہ حقائق شعر کا لبادہ اوڑھ ليں- چنانچہ فرماتے ہيں:

خواہم کہ کفکِ خونين از ديگ جان بر آرم

گفتار دو جہان را از يک دھان بر آرم

     يہ صفت عروج و کمال کے ساتھ مثنوي ميں ملتي ہے ليکن ديوان ميں بھي يہي نماياں ہے مثلاً سرّاَنا کے متعلق کہتے ہيں:

از کنار خويش يابم ہر دمي من بوي يار

عشق اور بندگي کے بارے ميں:

ديگران آزاد سازند بندہ را

عشق بندہ ميکند آزاد را

     ديوان شمس تبريزي تکلف اور تصنع سے اس حد تک دور ہے کہ شعر ميں صنايع ظريف و مطلوب کي جانب توجہ ضروري نہيں سمجھي جاتي کيونکہ اشعار کہنے والا کسي اور چيز ميں محو ہے - وہ فقط اپنے خيال اور احساس کو پيش کرتا ہے - گاہے بغير کسي اختيار اور ارادے کے يہ عمل مکمل ہوتا ہے :

مارا سفري فتاد بي ما

آنجا دل ما گشاد بي ما

مائيم ہميشہ مست بي مي

مائيم ہميشہ شاد بي ما

     مولانا کے اشعار کا مطلب سمجھنے ميں دقت اس ليے نہيں ہوتي کہ وہ مانوس اور عام فہم الفاظ بروئے کار لاتے ہيں - اس پر مستزاديہ کہ خيالات ميں صفائي اور سادگي ہونے کے سبب تصورات ميں الجھاو نہيں- فرماتے ہيں :

بر چرخ ، سحر گاہ يکي ماہ عيان شد

از چرخ فرود آمد و در ما نگران شد

درجان چو سفر کردم جز ماہ نديدم

تا سرّ تجلي ازل، جملہ بيان شد

***

عشقست بر آسمان پريدن

صد پردہ بہر نفس دريدن

ہر کہ بہر تو انتظار کند

بخت و اقبال را شکار کند

***

     رومي کے کلام ميں سعدي کي فصاحت ، عنصري کي پختہ کاري ، انوري اور فرخي کے پرشکوہ الفاظ موجود نہيں - ان کے يہاں مسعود سعد سلمان کي مستحکم زبان اور خاقاني جيسي استادانہ ترکيبات نہيں ملتيں - ان کے کلام ميں ايک ايسي چيز ہے کہ ان سب کے راستے کو روکتي ہے اور ان سے برتر ہے - انہوں نے جو کچھ محسوس کيا ہے اسے مجاز کي راہ اپنائے بغير بيان کيا ہے - وہ بغير کسي فلسفيانہ رنگ کے اپني روح کي شوريد گي اور ديوانگي کو صفحہ قرطاس پر رقم کرتے ہيں- اس کيفيت ميں وہ تند و تيز ہوا کے جھونکے کي مانند ہيں کہ جو کچھ اس کے راستے ميں آئے اسے لپيٹ کر لے جائے-

     مولانا کے شعر کا انداز جدا ہے - انہوں نے راہ نوتراشي ہے - جس کي شاخيں ويرانوں ، کاشانوں ، ميخانوں اور بتخانوں کي جانب جاتي ہيں- ليکن پھر مڑ آتي ہيں اور سيدھي عاشقوں کي عبادتگاہ کا رخ کرتي ہيں اور يوں حق و حقيقت کي راہ سے ملاپ پاتي ہيں - مولانا کي پرواز زمين سے آسمان کي طرف ہوتي ہے - پھر جب لوٹتے ہيں تو روحاني غذا مہيا کر تے ہيں جو جسم و روح ميںداخل ہوتي ہے - جسم وروح فيض پاتے ہيں ، ذي حيات اور ذي عقل بہرہ ور ہوتے ہيں -مسرت و شادماني اور خرمي و انبساط کا سيلاب امڈ آتا ہے اور صائب تبريزي کے الفاظ ميں يہ کيفيت ہوجاتي ہے :

از گفتہ مولانا مدھوش شدم صائب

اين ساغر روحاني صہباي دگر دارد

اور علامہ اقبال کي آواز آتي ہے:

پير رومي خاک را اکسير کرد

از غبارم جلوہ ہا تعمير کرد

     مولانا رومي کے يہاں آتش عشق موجود تھي- آتش کو بھڑکانے کا بھي بندوبست تھا - صرف باد نسيم کے ايک جھونکے کي منتظر تھي - يہ کام حضرت شمس تبريزي نے سرانجام ديا - ان کے تاثرات و انفعالات ميں ہيجان پيدا ہو گيا - وہ اسي انقلاب دروں کي تصوير کشي کرتے چلے گئے - حضرت شمس کے بعد صلاح الدين زرکوب اور حسام الدين چلپي نے اُن کي جگہ لے لي- يوں ديوان اور مثنوي منظر عام پر آئے- ہزاروں اشعار کہنے کے باوجود ان کي آتش عشق بجھنے نہ پائي اور وہ ہر دور کے سب سے بڑے صوفي شاعر متصور ہوئے - خود فرما گئے:

گفتا کہ چندراني گفتم کہ تابخواني

گفتا کہ چند جوشي گفتم کہ تاقيامت

***

ھم خونم و ھم شيرم ھم طفلم و ھم پيرم

ھم چاکر و ھم ميرم ھم اينم و ھم آنم

ھم شمس شکرريزم ھم خطہ تبريزم

ھم ساقي و ھم مستم ھم شہرہ و پنہانم

شمس الحق تبريزم جز با تو نياميزم

مي افتم و مي خيزم من خانہ نمي دانم

***

فسانہ عاشقان خواندم شب و روز

کنون در عشق تو افسانہ گشتم

     حضرات! يہ ان کا فسانہ ہي تو ہے جو ہميں نزد و دور سے يہاں لے آيا ہے اور ہم دنيا بھر ميں سر دھنتے تھکتے نہيں-

تحرير : ڈاکٹر انعام الحق کوثر

پيشکش: شعبہ تحرير و پیشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

مولانا رومي اور  شمس تبريز