• صارفین کی تعداد :
  • 2630
  • 7/9/2012
  • تاريخ :

عباسيوں کے دور ميں تشيع کي عددي افزودگي توجہ طلب ہے

بسم الله الرحمن الرحیم

عباسيوں نے اموي بادشاہت کے خلاف قيام کيا تو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق عليہما السلام کا دور تھا اور ان دو معصوم اماموں نے اس موقع سے استفادہ کرکے تفکر شيعہ کو زندہ کيا اور تشيع باليدگي اور ترقي کے راستے پر گامزن ہوا اور تشيع کے پيروکاروں ميں اضافہ ہوا. «سدير صيرفي» امام صادق عليہ السلام کے اعوان و اصحاب ميں سے تھے اور تشيع کي عددي افزودگي ديکھ کر ان پر وجد و ہيجان کي کيفيت طاري ہوئي اور امام صادق عليہ السلام کي خدمت ميں سرور و شادماني کا اظہار کرتے ہوئے عرض کيا:  لگتا ہے کہ نصف دنيا نے تشيع اختيار کيا ہے. اس زمانے ميں شام و مصر وفلسطين اور ايران کے بہت سے بڑے صوبوں کے عوام نے مذہب تشيع اختيار کيا تھا.

سوال: بنو اميہ نے اہل بيت (ع) اور پيروان اہل بيت (ع) پر مظالم کے پہاڑ توڑ دئيے تھے؛ کيا تشيع کے پيروکاروں کي جمعيت ميں اضافے کا بنو اميہ کے تسلط کے خاتمے ميں کوئي کردار تھا؟

جواب: حقيقت يہ ہے کہ بنو عباس نے مکر و حيلہ کرکے اہل بيت (ع) کا حق انہيں لوٹانے اور اہل بيت (ع) کے خون کا بدلہ لينے کا نعرہ لگا کر بنو اميہ کے خلاف اپني تحريک کا آغاز کيا تھا اور ايسا انہوں نے اس لئے کيا تھا کہ وہ ديکھ رہے تھے کہ جہان اسلام ميں شيعيان اہل بيت (ع) کي تعداد و آبادي ميں اضافہ ہورہا ہے اور مسلم امہ اس مرحلے ميں اہل بيت (ع) کے حقوق کے احياء اور ان کے خون کا بدلہ لينے کے حوالے سے بنو اميہ کے خلاف ان کے ساتھ تعاون کرے گي چنانچہ اہل تشيع کي آبادي ميں اضافہ بنواميہ کي بادشاہت کے زوال کا اہم ترين سبب گردانا جاتا ہے.

يہ سلسلہ بنو عباس کے دور ميں بھي جاري رہا اور امام صادق (ع) اور امام موسي کاظم و ديگر امامان معصوم عليہم السلام کي قيد و بند و شہادت کي وجہ بھي يہي تھي کہ بنو عباس کے بادشاہ ان کے پيروکاروں کي کثرت اور ان کي منطق و علم و دانش کي قوت سے خائف رہتے تھے.

مأمون عباسي نے اپنے بھائي امين کے خلاف قيام کرکے بھي اہل تشيع کو وعدے دے کر ان کا تعاون حاصل کيا اور جب مأمون نے اپنے بھائي کو قتل کر ڈالا اور اقتدار پر قبضہ کيا تو حجاز و عراق و ايران کے شيعوں کي تحريکوں سے چھٹکارا پانے کے لئے اس نے امام علي ابن موسي الرضا عليہ السلام کو مکر و فريب اور دھونس دھمکي کے ذريعے امام رضا عليہ السلام کو وليعہدي کا عہدہ سونپنے کا ارادہ کيا. چنانچہ اس نے امام عليہ السلام کو مدينہ سے اپنے دارالخلافہ «مرو = Marv» بلوايا مگر امام عليہ السلام نے وليعہدي کا عہدہ بادل ناخواستہ قبول کرنے کے باوجود ايسے متعدد اقدامات کئے جن کي بنا پر مأمون اپنے مقصد ميں ناکام ہوا. مآمون امام کو وليعہد بنا کر دو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا:

1- شيعہ تحريکوں کا خاتمہ ہو اور سادہ دل شيعہ بنوعباس کي بادشاہت کو اپني بادشاہت کے طور پر قبول کريں.

2- اہل دانش و فکر شيعہ امام عليہ السلام سے بدظن ہوجائيں اور تشيع کي وسعت و ترقي کا سلسلہ رک جائے.

مگر امام عليہ السلام نے پہلے مرحلے ميں مأمون کي طرف سے خلافت کي پيشکش کے جواب ميں فرمايا: اگر يہ حکومت واقعي خلافت الہيہ ہے جو تمہيں سونپ دي گئي ہے تو تمہيں يہ حق کس نے ديا ہے کہ تم اسے دوسروں کي سپرد کردو؟ اور اگر ايسا نہيں ہے اور يہ خلافت تمہاري نہيں ہے اور تم نے اس پر قبضہ کيا ہے تو يہ حق تم کو کس نے ديا ہے کہ پرائي چيز پر قابض ہوکر اسے دوسروں کے حوالے کردو؟

اور جب امام عليہ السلام نے يہ عہدہ قبول کيا تو يہ شرط لگا دي کہ: ميں کسي کو منصوب نہ کروں گا اور کسي کو معزول نہ کروں گا اور سرکاري امور ميں مداخلت نہيں کروں گا.

امام عليہ السلام نے ہر موقع و مناسبت سے اپنا موقف بيان کيا اور پھر مأمون نے امام عليہ السلام کے علم و امامت کو داغدار کرنے کي غرض سے مختلف مذاہب کے علماء کے ساتھ آپ (ع) کے مناظرے کرائے جو امام عليہ السلام کي مکمل کاميابي پر ختم ہوئے اور يوں تشيع کے پيروکاروں ميں روز بروز اضافہ ہوتا گيا اور يہ سلسلہ متوکل عباسي کے دور تک جاري رہا. متوکل عباسي نے اپنے دور ميں تشيع کے خلاف اموي طرز عمل اپنايا اور اہل تشيع کي سرکوبي کي پاليسي پر گامزن ہوا مگر عباسي بادشاہوں کا يہ طرز عمل ايران اور عراق پر آل بويہ اور ديلمي شيعہ حکمرانوں کي حاکميت کے آغاز پر ہي ختم ہوا. آل بويہ کيے دور ميں تشيع کو کافي وسعت ملي اور غزنوي دور ميں بھي يہ سلسلہ جاري رہا مگر جب شدت پسندانہ سني رويّے کے حامل ترک سلجوقيوں کي سلطنت کا آغاز ہوا تو سلجوقيوں نے تشيع کے پيروکاروں کي سرکوبي کے اموي اور عباسي سلسلے کا از سرنو آغاز کيا.

ابنا ڈاٹ آئي آر


متعلقہ تحريريں:

تشيع اسلام کا ہم عمر