• صارفین کی تعداد :
  • 4049
  • 7/4/2012
  • تاريخ :

سيد جمال الدين اسد آبادي

سيد جمال الدين اسد آبادي

 (يہ تحرير مولانا آزاد نے جمال الدين افغاني کي حيات ميں لکھي تھي)

تقريباً دو ماہ گزرے ہيں کہ ايک شخص سيد جمال الدين نامي سے ميري ملاقات ہوئي اس شخص کي شخصيت کا ميرے دماغ پر جو اثر پڑا- وہ ايسا ہے جو بہت کم شخصيتيں مجھ پر ڈال سکي ہيں- يہ اثر بہت قوي اور گہرا تھا اور اسي کا نتيجہ ہے کہ مجھے خيال ہوا سوربون يونيورسٹي کے خطبات کا موضوع يہ قرار دوں کہ ’’اسلام اور اس کا علم سے علاقہ ‘‘ سيد جمال الدين کي ذہنيت ايک ايسي ذہنيت ہے جو رسمي اسلام کے مؤثرات کي پوري طرح مقاومت کر سکتي ہے- ميں جب اس شخصيت سے باتيں کر رہا تھا، تو اس کے افکار کي آزادي، طبيعت کي فضيلت، اور اظہار حقيقت کي جرأت ديکھ کر مجھے خيال ہوا ميں اس وقت ان مشاہير عالم ميں سے کسي ايک کو مخاطب کر رہا ہوں کہ دنيا کے گزشتہ علمي زمانوں ميں گزر چکے ہيں،اور جن سے تاريخ کے ذريعے ہم نے واقفيت حاصل کي ہے ميں گويا ابن سينا، ابن رشد يا ان حکماء عظام ميں سے کسي حکيم کو اپنے سامنے ديکھ رہا تھا جنہوں نے فکر انساني کو جہل و اوہام کے قيود سے نجات کے لئے تاريخ عالم کي پانچ صديوں تک اپني شجاعانہ جدوجہد جاري رکھي تھي-

سيد جمال الدين انيسويں صدي کي تاريخ مشرق نے اصلاح و تجدد کي جس قدر شخصيتيں پيدا کي ہيں، ان ميں کوئي شخصيت بھي وقت کي عام پيداوار سے اس قدر مختلف اور اپني طبعي ذہانت اور غير اکتسابي قوتوں ميں غير معمولي نہيں ہے، جس قدر سيد جمال الدين کي شخصيت ہے- بغير کسي تامل کے کہا جا سکتا ہے کہ مشرق جديد کے رجال تاريخ اور قائدين فکر کي صف ميں اس کي شخصيت کئي اعتبار سے اپنا سہيم و شريک نہيں رکھتي!

وہ ايک گمنام اور مجہول ماحول ميں پيد ا ہوا- ايسے مجہول ماحول ميں کہ آج تک يہ بات قطعي طور پر معلوم نہ ہو سکي کہ وہ في الحقيقت باشندہ کہاں کا تھا؟ اسد آباد کا جواہرات کے قريب ہے اور افغانستان ميں واقع ہے، يا اسدآباد کا جو ہمدان کے قريب اور ايران ميں واقع ہے ؟

اس کے وطن کي طرح اس کي ابتدائي زندگي کے حالات پر بھي ظن و تخمين کے پردے پڑے ہوئے ہيں- تاہم يہ قطعي ہے کہ تعليم و تربيت کا اسے کوئي موقعہ ايسا نہيں ملا تھا جو کسي اعتبار سے بھي ممتاز اور قابل ذکر ہو- انيسويں صدي کے کامل تنزل يافتہ افغانستان اور پنجاب کے علماء اپنے گھروں اور مسجدوں ميں علومِ ر سميہ کي جيسي کچھ تعليم ديا کرتے تھے، زيادہ سے زيادہ تعليم جو اس نے حاصل کي تھي، وہ وہي تھي- جن استادوں سے اس نے تعليم حاصل کي وہ بھي يقيناً معمولي درجے کے تھے- ان ميں کوئي شخص ايسا نہ تھا جس کي علمي شخصيت قابل ذکر ہو-

دنيا کے نئے تمدني انقلاب اور نئے علوم سے آشنا ہونے کا بھي اسے کوئي خاص موقع حاصل نہيں ہوا تھا- اس کا ابتدائي زمانہ زيادہ تر افغانستان ميں بسر ہوا- يا ايک روايت کے مطابق ايران ميں، اور يہ دونوں مقامات اس وقت مغربي تمدن و علوم کي تعليم و تعلم کا کوئي سامان نہيں رکھتے تھے-

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

استاد عبدالباسط کے حالات زندگي ان کي اپني زباني  ( حصّہ چہارم )