• صارفین کی تعداد :
  • 3954
  • 6/20/2012
  • تاريخ :

امام حسن عليہ السلام اور افسانۂ طلاق‏

imam hassan (a.s.) fighting the unjust

اس بار جو الزام اچھالا گيا ہے وہ يہ ہے کہ طلاق اللہ کے نزديک ناپسنديدہ فعل ہے ليکن امام حسن عليہ السلام نے نکاح اور طلاق کے حوالے سے معاذاللہ افراط کا راستہ چنا تھا- ہم نے تھوڑي سے تحقيق کي تو پتہ چلا کہ بعض اپنے بھي اس بہتان سے متاثر ہوئے ہيں اور بعض نے تو اس کو امام عليہ السلام کے لئے باعث فخر گردانا ہے اور لکھا ہے کہ آپ (ع) نے 300 شادياں کي ہيں جبکہ حقيقت ميں آپ (ع) کي بائيس يا اکتيس اولاديں ہيں جو اس تشہيري مہم کي دستاويزات سے مغايرت رکھتي ہے-

اشارہ: حال ہي ميں بعض نواصب کي جانب سے ايک ايميل ميسج بھيجا گيا جس ميں عصمت ائمۂ اہل بيت عليہم السلام کو مخدوش کرنے کے لئے ريحانۃ الرسول (ص) حضرت امام حسن مجتبي عليہ السلام کي ولادت با سعادت کے موقع پر ايسے شبہے کو ہوا دي ہے جو عباسي بادشاہ منصور دوانيقي کے دور سے سرکاري منشيوں اور اور مستوفيوں نے وضع کيا اور ہزاروں بار اس کا جواب ديا گيا ليکن عباسي اور اموي بادشاہتوں اور آج کے زمانے کے برطانيہ، امريکہ اور اسرائيل کي پاليسي يہي رہي ہے کہ تہمتوں اور الزامات کو دہراؤ اور ان کے جواب پر کان مت دھرو حتي کہ تہمتوں کا نشانہ بننے والے شخص، نظام حکومت يا گروہ وغيرہ کے اپنے بہي خواہ بھي اس کي حقانيت ميں شک کرنا شروع کرديں" چنانچہ امويوں کے دين کے پيروکار نہ صرف اس موضوع ميں بلکہ تمام اعتقادي موضوعات ميں تيرہ صدياں پرانے بہتان دہراتے رہتے ہيں اور پيروان اہل بيت (ع) کي دلآزاري کا کوئي موقع ہاتھ سے نہيں جانے ديتے اور دوسري طرف سے امريکہ اور اسرائيل کے مفادات کے تحفظ کے لئے اتحاد بين المسلمين پر وار کر رہے ہيں-

اس بار جو الزام اچھالا گيا ہے وہ يہ ہے کہ طلاق اللہ کے نزديک ناپسنديدہ فعل ہے ليکن امام حسن عليہ السلام نے نکاح اور طلاق کے حوالے سے معاذاللہ افراط کا راستہ چنا تھا- ہم نے تھوڑي سے تحقيق کي تو پتہ چلا کہ بعض اپنے بھي اس بہتان سے متاثر ہوئے ہيں اور بعض نے تو اس کو امام عليہ السلام کے لئے باعث فخر گردانا ہے اور لکھا ہے کہ آپ (ع) نے 300 شادياں کي ہيں جبکہ حقيقت ميں آپ (ع) کي بائيس يا اکتيس اولاديں ہيں جو اس تشہيري مہم کي دستاويزات سے مغايرت رکھتي ہے-

بہرحال يہ ايک جعلي روايت ہے جو بعض مسلم مؤرخين نے جان کر يا انجانے ميں نقل کي ہے-  افسوس يہ ہے کہ انھوں نے اس روايت کے بارے  ميں تحقيق کو ضروري نہيں سمجھا ہے اور اندھادھند انداز سے اسے نقل کرتے رہے ہيں حتي کہ آج اہل بيت (ع) کے دشمنوں نے اسے اہل بيت (ع) کي عدم عصمت کي دستاويز قرار ديا ہے اور يہ جاہل لوگ اتنا بھي نہيں سوچتے کہ جس فعل کي برائي کو يہ سمجھتے ہيں کيا سبط نبي (ص) اس کو سمجھنے سے قاصر تھے؟

يہ ان ہي موضوعات ميں سے ہے کہ جاہلوں نے اسے اچھالا اور اسلام دشمن قوتوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ ليا جس طرح کہ ان ہي جاہلوں نے اسلامي روايات ميں رسول اکرم (ص) کي نسبت بھي ايسے ہي جعلي افسانے شامل کئے جو بعد ميں شيطاني آيات جيسي توہين آميز کتابوں کي صورت ميں برآمد ہوئيں اور اسلاميان عالم کي دلآزاري کا سبب بن گئے اور کفار نے بھي انہيں اسلام سے انتقام لينے کا وسيلہ قرار ديا- اور اکرم البستاني جيسوں نے بھي ان ہي روايات کا سہارا لے کر اسلام کي خوب خوب بے حرمتي کردي-

بشکريہ:  ف-ح-مہدوي

پيشکش: شعبہ تحرير و پبشکش تبيان