• صارفین کی تعداد :
  • 2048
  • 3/24/2012
  • تاريخ :

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا23

امام علی

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا19 

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا 20

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا 21

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا 22

چوتھا جواب

اس جواب کے لئے ايک تمہيد کي ضرورت ہے تاکہ مسئلے کا جواب مکمل طور پر واضح ہوجائے-

شيعہ عقائد ميں سے ايک بداء کا مسئلہ ہے- بداء اللہ تعالي کي نسبت، يعني کسي چيز کو آشکار اور ظاہر کرنا ہے جو بندوں سے مخفي تھا اور اس چيز کي ظہور پذيري ان (بندوں) کے لئے نئي ہے- (25)

چنانچہ اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ کوئي کوئي چيز مخفي ہونے کے بعد اللہ کے لئے آشکار ہوجائے کيونکہ ايسا خدا کے لئے محال اور ناممکن ہے-

بداء تمام امور و معاملات ميں جاري نہيں ہوا کرتي بلکہ آيات کے ظاہري مفہوم سے واضح ہوتا ہے کہ قضائے الہي کي تين قسميں ہيں جن ميں صرف ايک قسم کي قضاء ميں بداء جاري ہوتي ہے:

پہلي قسم: قضائے محتوم (يا قضائے مبرم يا نہ ٹلنے والي قضاء) ہے جس کا علم اللہ کے سوا کسي کے پاس بھي نہيں ہوتا- ظاہر ہے کہ اس طرح کي قضاء ميں بداء کا جاري ہونا ممکن نہيں ہے کيونکہ محتوم و مبرم ہے اور خدا کے سوا کسي کے لئے بھي ظاہر نہيں ہوگي کہ بداء کا جاري ہونا قرار ديا جائے؛ اور اللہ کے لئے ظہور بعد الخفاء (يعني ظاہر ہونا مخفي ہونے کے بعد) محال و ناممکن ہے- ہاں! اس طرح کي قضاء ديگر غير حتمي اور غير مبرم قضاğ (اقضيہ) کے لئے بداء کا سبب بن سکتي ہے گو کہ اس قسم کي قضاء ميں بذات خود بداء حاصل نہيں ہوا کرتي- بعض روايات اس قسم کي قضاء پر دلالت کرتي ہيں: "عن أبى بصير عن أبى عبد الله عليه السلام قال: "إنّ لله علمين: علمٌ مكنون مخزون لا يعلمه إلّا هو، من ذلك يكون البداء. وعلمٌ علّمه ملائكته ورسله وأنبياءه، ونحن نعلمه"- (26)

..........

مآخذ

25- عسكرى آيت الله سيد مرتضى ، عقايد اسلام در قرآن كريم ، ج2 ص504، مجمع علمى اسلامى ، 1378 ش ، چاپ: اول -

26- الكافي، ج 1، ص: 147 -