• صارفین کی تعداد :
  • 1883
  • 3/24/2012
  • تاريخ :

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا5

امام علی

کيا رسول اللہ کے بستر پر ليٹنا فضيلت نہ تھا1

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا2

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا3

کيا رسول اللہ کے بستر پر سونا فضيلت نہ تھا4

کسي عمل کي وقعت معلوم کرنے کا چوتھا معيار يہ ہے دينداروں اور شريعت کے پابند افراد اس کي تائيد کريں گوکہ يہاں بھي شرط يہ ہے کہ شارع مقدس ہو يا عقل سليم نے اس کي تعريف يا مذمت نہ کي ہو- چنانچہ اگر معاشرے کے ديندار [اور علماء صالح] کسي عمل کي تأئيد کريں تو ہم اس کو درست اور ممدوح سمجھ سکتے ہيں- گوکہ اگر امام معصوم عليہ السلام موجود ہو تو اس عمل کے بارے ميں شريعت کي رائے بيان کرے گا اور بتائے گا کہ شارع مقدس اس عمل سے راضي اور خوشنود ہے-

اب اس تمہيد کي روشني ميں اس موضوع پر بحث کرتے ہيں تا کہ ديکھ ليں کہ شب ہجرت رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بستر پر سونے کا عمل کتني عظمت اور وقعت رکھتا ہے-

حضرت اميرالمۆمنين کے اس عمل کي وقعت خدا کے نزديک

الف: قرآن ميں

تمام شيعہ اور اکثر سني تفاسير نے تصريح کي ہے کہ ليلۃ المبيت (يعني رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بستر پر علي عليہ السلام کے سونے والي رات) کو علي عليہ السلام کي عظيم قرباني اور جانفشاني کے کي تصديق و تأئيد اور تمجيد کي اور فرمايا: " وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَۆُفٌ بِالْعِبادِ"- (1) اور يہ آيت درحقيقت اميرالمۆمنين عليہ السلام کي شان ميں نازل ہوئي-

آيت کا ترجمہ: اور آدميوں ہي ميں وہ بھي ہے جواپني جان بيچ ڈالتا ہے اور اللہ کي مرضي کي طلب ميں اور اللہ بندوں پر بڑا شفيق ہے- 

ابن عباس کہتے ہيں: يہ آيت اميرالمۆمنين عليہ السلام کي شان ميں نازل ہوئي؛ جب رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم دشمن کے ہاتھ سے نکل گئے اور ابوبکر کو ہمراہ لے کر غار ميں چلے گئے، علي عليہ السلام مکہ ميں آپ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بستر پر سوگئے- (2)

--------

مآخذ

1- سوره بقره، آيت207-

2- الثعلبي، تفسير الثعلبي، ج 2 ص126، تحقيق : ابن عاشور ، 1422ق، ناشر : دار إحياء التراث العربي، بيروت، چاپ اول-