• صارفین کی تعداد :
  • 833
  • 6/6/2012
  • تاريخ :

افغان امريکہ  طويل المدتي شراکت داري معاہدہ

افغان امريکہ  طويل المدتي شراکت داري معاہدہ

امريکي صدر اوباما کے اعلان کے مطابق سن 2014 ء تک امريکي افواج افغانستان سے نکل جائيں گي - امريکي حکومت کے اس فيصلے کے بعد موجودہ افغان حکومت کو سب سے بڑا خدشہ يہ ہے  کہ امريکہ اور اتحادي ممالک کے چلے جانے کے بعد  حکومتي مشينري کو چلانے کے ليۓ سرمايہ کہاں سے آۓ گا ؟  جبکہ کہ دوسري طرف امريکہ کو بھي يہ پريشاني ہے کہ اگر وہ  مکمل طور پر افغانستان سے چلا جاۓ تو اسے علاقائي ممالک پر اثر و رسوخ رکھنے ميں مشکلات کا سامنا ہو گا  بلکہ اس کا يہ اثرو رسوخ ختم ہو کر رہ جاۓ گا - موجودہ افغان حکومت اور امريکہ نے اپنے اپنے مسائل کا حل افغان امريکہ اسٹريٹيجک معاہدے کي صورت ميں ڈھونڈھا ہے -

اس معاہدے کي رو سے  امريکہ افغان نيشنل آرمي اور حکومتي مشينري کو چلانے کے ليۓ اخراجات کا بندوبست کرے گا  جبکہ افغانستان امريکہ کو اپني سرزمين پر فوجي اڈے فراہم کرے گا - اس سے امريکہ کو يہ بھي فائدہ حاصل ہو گا کہ اس کے اپنے فوجي نہيں مريں گے  اور افغان نيشنل آرمي کے سستے فوجي ہي  امريکي  اور اتحادي فوجيوں کي بجاۓ افغان مزاحمت کاروں يا شدت پسندوں کا مقابلہ کريں گي - اس سے ايک بات صاف نظر آ رہي ہے کہ اگر امريکہ اپنے اس منصوبے ميں کامياب ہو جاتا ہے تو  آئندہ مزيد دس سال تک  عملي طور پر افغانستان ميں حکمراني امريکہ ہي کرے گا -

امريکي صدر براک اوباما القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کي امريکي فوجيوں کے ہاتھوں ہلاکت کا ايک سال مکمل ہونے پر افغانستان پہنچے، جہاں انہوں نے صدر کرزئي کے ساتھ طويل المدت شراکت داري معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد امريکي فوجيوں اور قوم سے خطاب بھي کيا-

 اطلاعات کے مطابق اسامہ بن لادن کي ہلاکت کو ايک سال مکمل ہونے پر امريکي صدر براک اوباما اچانک دورے پر بگرام کے ہوائي اڈے پر پہنچے اور اس کے بعد افغان دارالحکومت کابل ميں مختصر قيام کے دوران ايک طويل المدت شراکت داري کے معاہدے پر دستخط بھي کئے، جس کے تحت امريکي افواج 2014 کے بعد بھي افغانستان ميں رہ سکيں گي- اس موقع پر صدر حامد کرزئي نے کہا کہ افغانستان ميں جنگ کے خاتمے کے بعد ہونے والا معاہدہ دونوں ممالک کے ليے يکساں شراکت داري کے مواقع فراہم کرے گا- افغان صدر حامد کرزي کي جانب سے يکساں شراکت داري کي اميد کو مبصرين، امريکيوں کي خصلت کے پيش نظر دور از تصور سمجھتے ہيں اور ان کا کہنا ہي کہ امريکہ کا اس اسٹراٹيجک معاہدے کا بنيادي ہدف اپنے جاني اور مالي نقصان اور اخراجات کو کم کرنا ہے لہذا اس معاہدے کو اختيار اور انتظام کي تقسيم کے معنوں ميں لے لينا نہايت سادگي ہوگي- چنانچہ بگرام ائر بيس پر امريکيوں فوجيوں سے خطاب ميں مسٹر اوباما کہ يہ کہنا کہ ان کي قربانيوں سے امريکا محفوظ ہے، ليکن مشکل وقت ابھي ختم نہيں ہوا، امريکہ کے آئندہ کے عزائم کو واضح کرنے کے لئے کافي ہے- امريکي قوم سے خطاب کرتے ہوئے اوباما کا کہنا تھا کہ پاکستان کي سالميت، خود مختاري اور اس کے جمہوري اداروں کا احترام کرتے ہيں ليکن عملا امريکہ، پاکستان کے اقتدار اعلي اور ارضي سالميت، کہ جس کے احترام کے مسٹر اوباما مدعي ہيں، مذاق اڑاتا نظر آتا ہے لہذا يہ ماننا کہ افغانستان کے ساتھ اسٹرٹيجيک معاہدے کے بعد افغانستان کے امورميں امريکہ کي مداخلت ختم يا کم ہوجائےگي بعيد ہے اور اس کي دوسري وجہ دہشت گردي کے تعلق سے امريکي پالسياں ہيں کہ جن ميں تضاد اور دہرا معيار اس امکان کو سلب کرليتا ہے کہ افغان عوام کي مشکلات کا دور 2014 کے بعد ختم ہو جائے گا-

تحرير و ترتيب : سيد اسداللہ ارسلان