• صارفین کی تعداد :
  • 3677
  • 5/19/2012
  • تاريخ :

اشاعت اسلام کے مرکزي ايشيا پر اثرات ( بيسواں حصّہ )

آغاز کار با نام خدا

مرکزي ايشيا کے مسلمان، روس کے تسلّط کے دوران بڑے آرام سے بيٹھے تھے، ان کي آبادي کي اکثريت سنّي مسلمان اور حنفي فرقہ سے وابستہ تھي- دسمبر 1991ء ميں يکايک کومنسٹ سوويت يونين کے انحلال کے بعد مرکزي ايشيا ميں اسلامي سنتوں کے احياء کے زيادہ مقدمات فراہم ہوئے-مذہبي احکام کے جاري ہونے کا سب سے واضح نمونہ، اسلامي معاشرت کو قبول کرنا اور اپنانا تھا، ان ميں مذہبي شادي ، نماز يوميہ کي ادائيگي اور مساجد کي طرف زيادہ رغبت وغيرہ شامل تھيں- اسي طرح مساجد اور مدارس کي تعمير کا بھي قابل توجہ تعدادميں آغاز ہوا-990-1991ء ميں مسجدوں کي تعداد کا افتتاح 160 سے 500 تک پہنچ گيا، مساجد اور مدارس کي تعمير کا خرچ عربي ملکوں کے ذريعہ ادا ہوا-ايرا ن اور ترکي بھي کہ جو مرکزي ايشيا کے مسلمانوں کي حمايت ميں رقابت کي صف ميں کھڑے تھے اس کام ميں شريک تھے-سعودي عرب نے قرآن مجيد کے نسخوں کي ايک بڑي تعداد اس علاقہ ميں ارسال کي- ترکي، ايران اور سعودي عرب نے مذہبي جماعتوں کو يہاں پر بھيجا اور مرکزي ايشيا کے طالب علموں کو اپنے اپنے ملکوں ميں دينيات کي تعليم کي دعوت دي، آہستہ آہستہ اسلامي پارٹياں زيادہ ہوتي گئيں اور اسلامي پارٹيوں کار سانس سب ملکوں ميں پھيل گيا-

تاجيکستان نے غير مذہبي مفکرين کا جدّي طور سے مقالہ شروع کرديا ہے اور اُميد ہے مستقبل قريب ميں مرکزي ايشيا ميں اسلام زيادہ بااہميت ہوجائے گا، کيونکہ مرکزي ايشيا کے تمام جمہوري ملکوں نے سرکاري طور پر اپني حکومتوں کو اسلامي حکومت ہونے کا اعلان کرديا ہے-