• صارفین کی تعداد :
  • 677
  • 1/21/2012
  • تاريخ :

رہبر معظم سيد علي خامنہ اي سے ہونے والي ملاقاتيں يادگار ہيں

سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان

جماعت اسلامي خيبر پختونخوا کے امير نے کہا ہے کہ ميں جامعہ پنجاب واقعہ پر جمعيت کي وضاحت سے مطمئن نہيں، البتہ ميرے جذبات يہ ہيں کہ اس واقعہ کو نہيں ہونا چاہئے تھا، ليکن ہوا ہے تو اس کے ذمہ داروں کا تعين ہونا چاہئے اور غلطي کا ازالہ بھي ہونا چاہئے، ہميں امريکہ کي غلامي کي بجائے ايران اور چين کي طرف ديکھنا چاہئے، امريکہ کي موجودگي کي وجہ سے اس خطے کا امن تباہ و برباد ہو چکا ہے.

ابنا: سينيٹر پروفيسر ابراہيم خان نے کہا ہے کہ ہميں امريکہ کي غلامي کي بجائے ايران اور چين کي طرف ديکھنا چاہئے، امريکہ کي موجودگي کي وجہ سے اس خطے کا امن تباہ و برباد ہو چکا ہے، شمسي ايئر بيس کو تو خالي کرا ليا گيا ليکن اس وقت بھي دالبدين، پسني اور غازي ائير فورس کمپائونڈ امريکہ کے قبضے ميں ہيں، امريکہ عراق اور افغانستان ميں شکست کھا چکا ہے، وہ ايران کا بال تک بھيگا نہيں کر سکا، اور انشاءاللہ پاکستان کے ہاتھوں بھي امريکہ کو ہزيمت کا سامنا کرنا پڑے گا-

 جماعت اسلامي خيبر پختونخوا کے امير اور سينٹ کے رکن پروفيسر محمد ابراہيم خان 28 ستمبر 1954ء کو ہنجل امير خاں تحصيل و ضلع بنوں ميں پيدا ہوئے، آپ کالج ميں تعليم حاصل کرنے کے دوران ہي اسلامي جمعيت طلبہ سے وابستہ ہو گئے، 1973ء سے 1975ء تک اسلامي جمعيت طلبہ بنوں کي ذمہ داري ادا کي، 1975ء سے 1977ء تک گومل يونيورسٹي ميں اسلامي جمعيت طلبہ کے ناظم رہے اور پھر 1977ء سے 1980 تک ناظم اسلامي جمعيت طلبہ ڈيرہ اسماعيل خان کے عہدے پر فائز رہے، اس کے بعد آپ جماعت اسلامي پاکستان سے وابستہ ہو گئے اور پھر 1981ء سے 1982ء تک قيم جماعت اسلامي بنوں اور 1982ء سے 1984ء تک قيم جماعت اسلامي ضلع ڈيرہ اسماعيل خان کي ذمہ داري ادا کرتے رہے، 1982ء ميں تعليم کي تکميل کے بعد پروفيسر ابراہيم صاحب کي گومل يونيورسٹي کے جرنلزم ڈيپارٹمنٹ ميں بطور ليکچرار تقرري ہوئي اور يہاں پر 1985ء تک خدمات انجام ديتے رہے، جون 1985ء ميں قيم جماعت اسلامي صوبہ سرحد (خيبر پختونخوا) مقرر ہوئے اور 1994ء تک خدمات سرانجام ديتے رہے، اپريل 1994ء ميں جماعت اسلامي صوبہ سرحد کے امير منتخب ہوئے اور اکتوبر 2003ء کو سينٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے، اس کے بعد فروري 2006ء ميں دوبارہ رکن سينٹ کے ليے آپ کا انتخاب عمل ميں آيا، پروفيسر ابراہيم کا شمار صوبہ کي اہم مذہبي و سياسي شخصيات ميں ہوتا، اسلام ٹائمز نے ابراہيم صاحب کے ساتھ ايک انٹرويو کا اہتمام کيا، جو قارئين کے پيش خدمت ہے-

اسلام ٹائمز:جماعت اسلامي نے ملک ميں اسلامي انقلاب کيلئے حاليہ تحريک شروع کي ہے، اس کے تناظر ميں پوچھنا چاہوں گا کہ کيا آپ سمجھتے ہيں کہ پاکستاني قوم حقيقي معنوں ميں اسلامي انقلاب کي متمني ہے-؟ سينيٹر پروفيسر ابراہيم خان:ميں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستاني قوم کو يہ موقع ديا جاتا اور کھلا ميدان مل جاتا تو پاکستان ميں اسلامي انقلاب بہت پہلے آ چکا ہوتا، فروري 1949ء ميں قرارداد مقاصد کي منظوري کے موقع پر جماعت اسلامي کا ايک بھي رکن پارليمنٹ ميں موجود نہيں تھا، ليکن عوامي دبائو کے تحت جماعت اسلامي نے اس وقت کي اسمبلي کو مجبور کيا کہ اس بات کو تسليم کر ليا جائے کہ حاکم اعلٰي اللہ تعالٰي کي ذات ہے، اور جمہور کے منتخب نمائندے امانت کے طور پر اس اختيار کو استعمال کرينگے کہ وہ اللہ تعالٰي کے سامنے بھي جوابدہ ہونگے اور جمہور کے سامنے بھي، اس کے بعد دستور آتے رہے اور پھر آخري دستور جو 1973ء ميں بنا اور آج تک نافذالعمل ہے اس ميں اسلامي دفعات تسليم کر لي گئيں جو کہ ہماري کاميابي ہے، ليکن ہم نے ابھي تک پارليماني کاميابي حاصل نہيں کي، اس کي وجہ يہ ہے کہ يہاں ايجنسياں لوگوں کو اٹھاتي اور گراتي ہيں، اور عام ووٹر کے ذہن ميں يہ بات بيٹھ گئي ہے کہ تبديلي اس کے ووٹ سے نہيں بلکہ فوج يا امريکہ کے ذريعے آتي ہے، يا پھر فوج اور امريکہ ملکر تبديلي لاتے ہيں-

اب حالات بدل رہے ہيں، اس لئے ہميں اميد بلکہ يقين ہے کہ انشاءاللہ عوام کا فيصلہ درست ہو گا، ہم عوام کے سامنے آئيں گے اور اس لئے جماعت اسلامي نے سب سے پہلے اپنا منشور پيش کر ديا ہے، امانت و ديانت اور عدل و انصاف کے ذريعے ہي ملک و قوم کے مسائل حل ہو سکتے ہيں، اس وقت ہمارے مسائل کي بنياد کرپشن ہے اور کرپشن کا مسئلہ امانت دار اور ديانتدار قيادت کے ذريعے حل ہو سکتا ہے، ملک ميں امن و امان کا جو گھمبير مسئلہ ہے وہ عدل و انصاف کے ذريعے حل ہو سکتا ہے، يہي ہمارا منشور ہے، مدينہ منورہ کي وہ اسلامي رياست جس کي بنياد نبي کريم ص نے ڈالي تھي وہ ہمارے لئے رول ماڈل ہے، نبي ص نے اس وقت ميثاق مدينہ کے نام سے جو دستور پيش کيا تھا آج بھي دنيا اس بات کو تسليم کر رہي ہے کہ وہ پہلا تحريري دستور ہے، اور ہم اسي نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان ميں اسلامي انقلاب لانا چاہتے ہيں، ہميں يقين ہے کہ اب عوام ہمارا ساتھ دينگے، اب کسي طالع آزما کو موقع نہيں ملے گا اور سياست ميں ايجنسيوں کا کھيل بھي ختم ہونے والا ہے-

اسلام ٹائمز:کيا آپ سمجھتے ہيں کہ پاکستان ميں ايسي شخصيات موجود ہيں جو اسلامي انقلاب برپا کرنے ميں قوم کي قيادت کر سکيں-؟ سينيٹر پروفيسر ابراہيم خان:انقلاب اصولوں کي بنياد پر آتے ہيں، حسن البنٰي کو 1948ء ميں شہيد کر ديا گيا تھا ليکن مصر ميں تو آج انقلاب آيا ہے، يہ اسلام کے اصول ہيں جن کي بنياد پر انقلاب آتے ہيں، تيونس ميں راشد الغنوشي موجود ہيں ليکن وہاں بھي اسلام کے اصولوں پر لوگوں نے تبديلي کي بنياد رکھي، لہٰذا پاکستان ميں قوم کو شخصيات کے پيچھے لگانے کي بجائے ہم اسلام کے اصول سکھانا چاہتے ہيں، شخصيات تو آني جاني ہيں، آج ايک شخصيت ہے کل دوسري ہو گي، جس طرح کل قاضي صاحب تھے آج منور حسن صاحب ہيں اور کل کوئي اور ہو گا، اگرچہ شخصيات کي اہميت سے بھي کوئي انکار نہيں کر سکتا ليکن ليکن اصل بات اصولوں کي ہے، اور اصولوں کي بنياد پر کوئي انقلاب آئے تو وہ ديرپا ہوتا ہے، اگر شخصيت کي بنياد پر تبديلي آتي ہے تو اس شخصيت کے جانے کے بعد وہ تبديلي بھي ختم ہو جاتي ہے، ہم اسلام اور قرآن و سنت کے اصولوں کي بنياد پر تبديلي لانا چاہتے ہيں-

اسلام ٹائمز:خيبر پختونخوا کافي عرصہ سے دہشتگردي کي لہر کي لپيٹ ميں ہے، آپ کے خيال ميں اس دہشتگردي کے پيچھے دشمن ممالک کي ايجنسياں ہيں يا پھر اس ميں ہمارے ہي لوگ ملوث ہيں-؟ سينيٹر پروفيسر ابراہيم خان:بيروني ممالک کي ايجنسياں ہي نہيں بلکہ امريکہ خود اس خطے ميں موجود ہے، اور جو کچھ ہو رہا امريکہ اس ميں ملوث ہے، امريکہ کي موجودگي کي وجہ سے اس خطے کا امن تباہ و برباد ہو چکا ہے، امريکہ يہاں سے نکل جائے سب کچھ ٹھيک ہو جائے گا، ہمارے حکمران امريکہ کے آلہ کار بنے ہوئے ہيں، پرويز مشرف امريکيوں کا گھوڑا تھا، شمسي ايئر بيس کو تو خالي کرا ليا گيا ليکن اس وقت بھي دالبدين، پسني اور غازي ائير فورس کمپائونڈ امريکہ کے قبضے ميں ہيں، امريکہ ہمارے ملک کا امن و امان تباہ کرنے کا باعث بنا ہے، مشرف اپنے جلسوں ميں اعلان کرتا رہا کہ اگر آپ کو ميري پاليسياں قبول ہيں تو ق ليگ کو ووٹ ديں ليکن عوام نے ق ليگ کو مسترد کيا، ہونا يہ چاہيے تھا کہ پيپلزپارٹي کي حکومت سابقہ امريکي پاليسيوں کو ختم کرتي، ليکن آصف زرداري نے مزيد شدت کيساتھ ان پاليسيوں کو جاري رکھا، اکتوبر 2008ء ميں اس وقت کے ڈ ي جي ملٹري آپريشنز جنرل شجاع پاشا نے ايوان کو جو بريفنگ دي تھي اسکے معني يہ تھے کہ وہ پرويز مشرف کي پاليسي پر پارليمنٹ سے مہر توثيق ثبت کرنا چاہتے ہيں ليکن پارليمنٹ نے ان کا ساتھ نہيں ديا-

زرداري اور گيلاني کي حکومت نے پارليمنٹ کا ساتھ دينے کي بجائے پرويز مشرف کي پاليسيوں کو جاري رکھا، بات يہاں تک پہنچ گئي کہ 2 مئي کو ايبٹ آباد کا واقعہ ہو گيا، 13 مئي کو پھر پارليمنٹ کا اجلاس ہوا، جس ميں پارليمنٹ نے 2008ء کي قرارداد پر عمل درآمد کا مطالبہ کيا ليکن آج تک اس قرار داد پر عملدرآمد نہيں ہوا، آج جب ميمو گيٹ کي وجہ سے زرداري پر کچھ حرف آنے لگا ہے تو وہ فوج اور سپريم کورٹ کيخلاف بولنے لگے ہيں، اب يہ ثابت ہو گا کہ منصور اعجاز کے اس ميمو ميں زرداري کا کتنا ہاتھ ہے، انگلياں زرداري کي طرف ہي اٹھ رہي ہيں کہ انہوں نے امريکي فوج اور امريکي حکومت کو کہا ہے کہ آپ ميرا ساتھ ديں، ميں فوج کو آپ کا تابع بنائوں گا، پرويز مشرف کي کمانڈ ميں فوج امريکہ ہي کے تابع رہي ہے، ايبٹ آباد واقعہ اور سلالہ حملے کے بعد فوج امريکہ کے مخالف ہونے لگي ہے، ہم تو روز اول سے کہتے رہے ہيں کہ آپ امريکہ کا ساتھ دے کر غلطي کر رہے ہيں، اور مشرف کي کمانڈ ميں ہونے والي غلطيوں کا ازالہ کرنا ہماري فوج پر لازم ہے اور زرداري جو ہمارے دشمن امريکہ سے فوج کيخلاف مدد مانگ رہے ہيں يہ غداري ہے-

ہم چاہتے ہيں کہ ہر ايک کي پوزيشن واضح ہو، فوج کہتي ہے کہ ہمارا اندروني احتسابي نظام موجود ہے، ليکن مشرف کيخلاف کوئي ايکشن نہيں ليا گيا، فاٹا اور پاٹا ميں ايکشن ان ايڈ آف سول پاور ريگوليشنز پر دستخط کر کے زرداري نے فوج کو وہ اختيارات ديئے ہيں جو کسي کے پاس نہيں، جس کے تحت کسي کو بھي کسي بھي وقت قتل کيا جا سکتا ہے، ہم ان سے پوچھتے ہيں کہ يہ اختيار کس بنياد پر ديا گيا ہے، ہم اس حوالے سے سپريم کورٹ گئے ليکن ہميں عدالت سے گلہ ہے کہ اس نے آج تک اس کيس کو ٹيک اپ نہيں کيا، ہم نے آئيني تقاضوں کے باعث فاٹا نہيں پاٹا کيلئے عدالت سے رجوع کيا، ليکن رجسٹرار نے يہ اعتراض لگا ديا کہ اس پٹيشن ميں ملاکنڈ کا کوئي فرد موجود نہيں ہے، حالانکہ ميں نے درخواست دائر کي اور ميں اسي صوبے کا باشندہ ہوں، مجھے اس حوالے سے سپريم کورٹ سے شکوہ ہے کہ اس نے ميري درخواست سماعت کيلئے منظور نہيں کي، اب اس درخواست ميں ہم نے ملاکنڈ کے افراد کے نام بھي ڈال ديئے ہيں ليکن ابھي تک سماعت کي تاريخ مقرر نہيں ہوئي-

ہم چاہتے ہيں يہ سارے مسائل حل کئے جائيں، امريکہ يہاں موجود ہے اور ہم اس کيخلاف صف آراء ہونے کيلئے تيار ہيں، ليکن ہمارے جرنيل کہتے ہيں کہ ہم امريکہ کا مقابلہ نہيں کر سکتے، ہم کہتے ہيں کہ اللہ کے فضل سے ہم امريکہ کا مقابلہ کر سکتے ہيں، اللہ ہمارے ساتھ ہو تو امريکہ ہم سے شکست کھائے گا، ہم سات سمندر پار کر کے امريکہ پر حملہ آور نہيں ہو رہے بلکہ امريکہ ہم پر حملہ آور ہو چکا ہے، امريکہ نے ہم پر حملے کئے ليکن ہمارے جرنيلوں نے بزدلي کا مظاہرہ کيا، امريکہ عراق اور افغانستان ميں شکست کھا چکا ہے، وہ ايران کا بال تک بھيگا نہيں کر سکا، اور انشاءاللہ پاکستان کے ہاتھوں بھي امريکہ کو ہزيمت کا سامنا کرنا پڑے گا، زرداري اور گيلاني کہتے ہيں کہ ہم امريکہ کا کھاتے ہيں ليکن ميں کہتا ہوں کہ ہم اللہ کا ديا ہوا کھاتے ہيں، امريکہ ميں ہمارے 500 ارب ڈالر پڑے ہيں  جو ہمارے حکمران ليکر گئے تھے اور وہي ہميں امداد کي شکل ميں واپس ملتا ہے، امريکہ ہميں کچھ نہيں دے رہا، کيري لوگر بل کے تحت ڈيڑھ ارب ڈالر سالانہ دينے کي بات کي گئي، دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہميں 3 ہزار ملين ڈالر ملنے چاہئے تھے ليکن اب تک 189 ملين ڈالر ملے ہيں-

ہماري افواج کو امريکہ سے کچھ نہيں مل رہا، اللہ کے فضل سے ہم اپنے طور پر الخالد ٹينک تيار کر رہے ہيں، چين کے تعاون سے ايف16 سے بہتر جے ايف 17تھنڈر تيار ہو رہے ہيں، امريکہ ہميں طيارے دے رہا ہے ليکن چين تو ہمارے ساتھ ٹيکنالوجي بھي شيئر کر رہا ہے، مشرف دور ميں بھي ہم سے پوچھا جاتا تھا کہ اگر ہماري جگہ آپ ہوتے تو کيا کرتے؟ ہمارا جواب اس وقت يہ ہوتا تھا کہ ہم ايران اور چين سے بات کرتے، ايماني جزبہ ہوتا تو کسي سے بھي بات کرنے کي ضرورت نہيں تھي ليکن دنياوي لحاظ سے اگر ہم ايران اور چين کيساتھ بات کرتے تو امريکہ افغانستان پر حملہ آور ہي نہ ہوتا اور پاکستان کي يہ صورتحال بھي نہ ہوتي، جس طرح مشرف امريکہ کے سامنے بچھ گيا تھا زرداري اور گيلاني بھي اسي طرح ليٹے ہوئے ہيں، اور امريکي کي يہاں موجودگي کي وجہ سے پاکستان کو مشکلات درپيش ہيں-

اسلام ٹائمز:سلالہ حملے کے بعد کيا آپ سمجھتے ہيں کہ پاکستان کي حکومت اور سٹيبلشمنٹ کي امريکہ کيساتھ تعلقات کي پاليسي تبديل ہو گئي ہے، يا پھر يہ وقتي ردعمل ہے-؟ سينيٹر پروفيسر ابراہيم خان:ظاہري طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ تبديلي آئي ہے ليکن حقيقت ميں تبديلي نہيں آئي، پاک فوج نے امريکہ سے کنارہ کشي اختيار کر لي ہے جبکہ حکومت نے اب تک امريکہ سے عليحدگي کا اعلان نہيں کيا، ميرا خيال ہے کہ حکومت فوج کے ہاتھوں مجبور ہوئي، جس کي وجہ سے شمسي ايئر بيس کو خالي کروايا اور ناٹو سپلائي لائن کو منقطع کيا، ليکن جس طرح کہ ميں نے بتايا کہ اب بھي کئي بيسز امريکہ کے قبضے ميں ہيں، شمسي ايئر بيس کا بھي اب تک امريکہ کے قبضے ميں رہنا بہت معني خيز ہے، اس حکومت کے دور ميں کم از کم يہ نہيں ہونا چاہئے تھا، آمر کے جانے کے بعد پاليسي ميں تبديلي آني چاہئے تھي، اور اب باقي ايئر بيسز کو بھي امريکہ سے واگزار کرانا چاہئے، ہم دس سال سے چيخ رہے تھے اور اب ہماري بات درست ثابت ہو رہي ہے، اب فوج کو يہ احساس ہونے لگا ہے کہ ہماري پاليسي غلط تھي، فوج اور حکمران ہميں اب تک باور کراتے رہے ہيں کہ ہم امريکہ کے بغير نہيں جي سکتے، اب يہ بات ثابت ہو رہي ہے کہ الحمد اللہ ہم خود جي رہے ہيں، اس وقت نہ تو ہم سياسي اور معاشي طور پر امريکہ پر انحصار کئے ہوئے ہيں اور نہ ہي ملٹري اعتبار سے ہم امريکہ پر انحصار کر رہے ہيں، حکمرانوں کو بھي اس بات کا احساس ہو جانا چاہئے کہ جتني جلدي ممکن ہو ہم امريکہ سے عليحدگي اختيار کر ليں-

اسلام ٹائمز:آئندہ اليکشن آپ کب منعقد ہوتے ديکھ رہے ہيں، اور کيا آئندہ ديني جماعتوں کو آگے آنے کا موقع مل سکے گا-؟ سينيٹر پروفيسر ابراہيم خان:اگر يہ حکومت اپني مدت پوري کرتي ہے تو آئين کے مطابق 18 نومبر 2012ء کو يہ سيٹ اپ ختم ہو جائے گا، اس کے بعد پھر 6 ماہ کے اندر انتخابات ہونے چاہيں، اس اعتبار سے آئندہ اليکشن کيلئے ايک سال سے کم عرصہ رہ گيا ہے، ليکن اس وقت صورتحال ٹھيک نہيں ہے، گذشتہ روز ہي تيل، گيس اور بجلي کي قيمتوں ميں اضافہ کا اعلان ہوا ہے جس پر قوم سراپا احتجاج ہے، حکمرانوں کے عيش و عشرت ميں کسي قسم کي کمي نہيں آ رہي، حال ہي ميں صدر زرداري کے کچن کي تزين و آرائش پر 25 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہيں جبکہ سيلاب متاثرين کے گھروں کي تعمير کيلئے في خاندان 20 ہزار روپے ديئے گئے جو تمام خاندانوں کو نہيں ملے، اس ميں بھي اے اين پي اور پيپلزپارٹي کے کارکنوں کو ہي نوازا جا رہا ہے، اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ موجودہ حکومتي سيٹ اپ نومبر سے قبل ہي ختم ہو جائے- دوسري جانب ميمو گيٹ سکينڈل بھي چل رہا ہے، بجائے خود کو پاک و صاف ثابت کرنے کہ زرداري سپريم کورٹ کو دھمکياں دے رہے ہيں، اس سے قبل بھي زرداري پر الزامات عائد ہونے پر يہ کہا گيا کہ انہيں استثنٰي حاصل ہے، استثنٰي حاصل ہونے کا دعويٰ کرنے کا مطلب يہ ہے کہ جرم تو وہ کر چکے ہيں ليکن چونکہ استثنٰي حاصل ہے اس وجہ سے ان پر ہاتھ نہيں ڈالا جا سکتا، جب وہ صدر نہيں رہيں گے تو استثنٰي بھي نہيں رہے گا، آصف زرداري اب پاني ميں چھري ديکھنے لگے ہيں اس لئے وہ سپريم کورٹ پر برس پڑے ہيں، اس بنياد پر يہ کہا جا سکتا ہے کہ نومبر سے قبل بھي اليکشن متوقع ہيں-

آپ کے سوال کے دوسرے حصہ کے بارے ميں يہ کہوں گا کہ ديني جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے بات چيت ہوتي رہي ہے، مولانا فضل الرحمان صاحب کے ساتھ ہمارے مذاکرات کے کئي دور ہوئے، متحدہ مجلس عمل کي بحالي کيلئے مجالس ہوئيں، سب سے پہلے اسلام آباد ميں مولانا فضل الرحمان کي سرکاري رہائش گاہ پر مجلس عمل کے قائدين اکٹھے ہوئے، وہاں مولانا فضل الرحمان کو کہا گيا کہ آپ حکومت چھوڑ ديں اس کے بعد مجلس عمل کو بحال کرنے کي بات ہو سکتي ہے، جبکہ مولانا کا اصرار اسي بات پر تھا کہ آپ مجلس عمل بحال کريں اور مجھے فيصلہ سنا ديں ميں حکومت چھوڑ دوں گا، ليکن بات اٹکي رہي، اس کے بعد پروفيسر ساجد مير نے اسلام آباد ميں ايک دعوت کي، پھر علامہ ساجد علي نقوي صاحب نے تمام قائدين کو مدعو کيا، اس کے بعد جے يو پي کي جانب سے کراچي ميں رہنمائوں کو اکٹھا کيا گيا، اس موقع پر يہ طے ہوا کہ پہلے معاملات کو حتمي شکل دے دي جائے اور پھر باقاعدہ اعلان کر ديا جائے، مولانا فضل الرحمان صاحب حکومت سے عليحدگي پر آمادہ نہيں تھے جبکہ دوسرے رہنمائوں کا موقف تھا کہ پہلے آپ حکومت سے عليحدہ ہوں پھر مجلس عمل بحال ہو سکتي ہے، بہرحال اس بات پر اتفاق نہيں ہو سکا-

اس کے بعد وفاقي وزير اعظم سواتي کا مذہبي امور کے وزير حامد سعيد کاظمي سے جھگڑا ہوا، اور پھر معاملہ سپريم کورٹ پہنچ گيا جس کے بعد وزيراعظم نے دونوں وزراء کي چھٹي کر دي، بعدازاں اعظم سواتي نے مولانا کي ساري وزارتيں ختم کروا ديں، مولانا صاحب مرکزي حکومت سے تو عليحدہ ہو گئے ليکن زرداري کيساتھ ان کے مراسم برقرار ہيں، بلوچستان اور گلگت بلتستان ميں جے يو آئي پيپلزپارٹي کي حکومتوں ميں شامل ہے، فضل الرحمان سے يہ بھي تقاضا ہے کہ انہيں پيپلزپارٹي سے مکمل عليحدگي اختيار کرنا ہو گي، مولانا فضل الرحمان کي اپني منطق بڑي مضبوط ہے اور وہ دلائل ديتے ہيں ليکن اتفاق نہ ہونے کي وجہ سے مجلس عمل بحال نہيں ہو رہي، ہم سمجھتے ہيں کہ اگر مجلس عمل پائيدار بنيادوں پر بحال ہوتي ہے تو ٹھيک ہے ليکن کچھ عرصہ بعد پھر توڑنے کيلئے مجلس عمل کو فعال کرنا ٹھيک نہيں ہو گا، مجلس عمل ايک آپشن ہے، ہم سمجھتے ہيں کہ ديني جماعتوں کا اتحاد بہت ضروري ہے، اگر آئندہ اليکشن سے قبل مجلس عمل بحال نہيں ہوتي تو ہماري کوشش ہو گي کہ ديني جماعتوں کي سيٹ ٹو سيٹ ايڈجسٹمنٹ ہو، ہمارا ووٹ تقسيم نہيں ہونا چاہئے، ہم ايک دوسرے کے حليف ہوں اور حريف نہ بن جائيں-

اسلام ٹائمز:گذشتہ دنوں جامعہ پنجاب ميں اسلامي جمعيت طلبہ کي جانب سے پيش آنے والے واقعہ سے اتحاد کي فضاء کو دھچکا پہنچا، آپ کے خيال ميں اس معاملہ کو کس طرح حل کيا جائے کہ آئندہ ايسا کوئي واقعہ رونما نہ ہو-؟ سينيٹر پروفيسر ابراہيم خان:اس واقعہ کے بارے ميں ميں نے اخبارات ميں پڑھا اور اسلامي جمعيت طلبہ نے اپني ويب سائٹ پر اس کي کوئي وضاحت بھي کي تھي، ليکن ميں اس وضاحت سے مطمئن نہيں ہوں، وہ وائس چانسلر پر الزام عائد کر رہے ہيں کہ وہ فرقہ واريت پھيلا رہا ہے، باقي وضاحت نہيں کي گئي کہ واقعہ کي بنياد کيا چيز بني اور يہ واقعہ کيوں پيش آيا، اس بارے ميں مکمل معلومات ميرے پاس نہيں ہيں کہ واقعہ کيسے پيش آيا اور کس کي کيا زيادتي ہے، گزشتہ دو روز سے ميں امير جماعت منور حسن صاحب کيساتھ خيبر پختونخوا کے جنوبي اضلاع کے دورے پر تھا، منور حسن صاحب اس دوران مسلسل رابطے ميں تھے، جس کے نتيجے ميں کميٹي بھي قائم ہو گئي ہے- اس سے قبل قاضي حسين احمد صاحب کے دورہ امارت ميں بھي اس قسم کا واقعہ ہوا تھا، اس وقت قتل تک ہو گئے تھے، الحمد اللہ اس مرتبہ ايسي کوئي صورتحال نہيں بني، چند رفقاء زخمي ہوئے ہيں ليکن وہ بھي نہيں ہونا چاہئے تھا، اس حوالے سے ميں بہت معلومات نہيں رکھتا اس لئے کسي فريق پر ذمہ داري نہيں ڈال سکتا، البتہ ميرے جذبات يہ ہيں کہ اس واقعہ کو نہيں ہونا چاہئے تھا، ليکن ہوا ہے تو اس کے ذمہ داروں کا تعين ہونا چاہئے اور غلطي کا ازالہ بھي ہونا چاہئے، ميں سمجھتا ہوں کہ ديني لوگوں کے ايک دوسرے کيساتھ بہترين تعلقات ہونے چاہيں-

اسلام ٹائمز:آپ رہبر معظم انقلاب اسلامي جناب سيد علي خامنہ اي سے ملاقاتيں کر چکے ہيں، ہمارے قارئين کو ان ملاقاتوں کے بارے ميں آگاہ کريئے گا- سينيٹر پروفيسر ابراہيم خان:ميري پہلي ملاقات ان سے 1994ء ميں ہوئي تھي جب ميں پہلي مرتبہ قاضي حسين احمد کي قيادت ميں ايران گيا تھا، اس وقت رہبر معظم سے بہت قريب سے ملاقات ہوئي، ہمارا وفد پانچ چھ رفقاء پر مشتمل تھا، يہ يادگاري ملاقات رہبر معظم کے دفتر ميں ہوئي، اس موقع پر بہت اچھي گفتگو ہوئي، اس کے بعد 2004ء سے ميں مسلسل ہر سال ايران جا رہا ہوں، مجع جہاني تقريب بين المذاہب اسلامي جس کے جناب آيت اللہ محمد علي تسخيري صاحب سربراہ ہيں کے تحت ہر سال کانفرنس منعقد ہوتي ہے، اس کانفرنس ميں ميں مسلسل شريک رہا ہوں، اس دوران 12 تا 17 ربيع الاول ہفتہ وحدت ہوتا ہے، اس موقع پر رہبر معظم کے دفتر کے ہال ميں سيرت کے حوالے سے جلسہ بھي منعقد ہوتا ہے، ايک سال خاتمي صاحب کي بھي تقرير سني، احمدي نژاد صاحب کو بھي ہر سال سنتے ہيں، رہبر معظم بھي سيرت کے حوالے سے تقرير کرتے ہيں، 2006ء ميں منعقد ہونے والي القدس کانفرنس کے موقع پر بھي رہبر معظم سے قريبي ملاقات ہوئي تھي-