• صارفین کی تعداد :
  • 485
  • 1/21/2012
  • تاريخ :

افغانستان؛ يوم عاشورپردہشتگردي، شيطان بزرگ کي سازش

يوم عاشور پر دہشتگردي،

افغانستان کے صدر مقام شہر کابل ميں يوم عاشورا عزادران حسين عليہ السلام پرخودکش حملہ ايک سوچے سمجھے سازش کے تحت کيا گيا جس ميں سو فيصد شيطان بزرگ امريکہ ملوث ہے؛ کيونکہ طالبان نے دھماکے کے فوراً بعد اس کي بھرپور مذمت کي اور پھر طالبان اس وقت ملک ميں شيعہ سني جنگ کرنے کي پوزيشن ميں بھي نہيں ہيں-

يہ بات درست ہے کہ طالبان حکومت کے دور ميں افغانستان ميں اہل تشيع پر حد سے زيادہ مظالم ڈھائے گئے تھے- ليکن اب وہ بظاہر يہ بات سمجھ چکے ہيں کہ شيعہ سني اتحاد ہي سے افغانستان ميں امريکي طاغوت کو سرنگوں کيا جاسکتا ہے- ہاں البتہ جہاں تک پاکستاني طالبان کا تعلق ہے وہ تو ويسے ہي شيعہ قتل کرو پاليسي پر عمل پيرا ہيں اور يہ حقيقت ان کے کرتوتوں سے بھي واضح ہے- انھوں نے پاکستان ميں کبھي غلطي سے بھي امريکي مفادات کيخلاف کوئي سرگرمي نہيں دکھائي- جس کي وجہ يہ ہے کہ پاکستان ميں موجود طالبان، اصل ميں امريکہ ،اسرائيل اور ہندوستان کے مفادات کيلئے کام کرنے پر مامور ہيں- پاکستاني طالبان پاکستان ميں ہر وہ کام کرتے ہيں جس سےاس ملک کي بقاء کو خطرہ لاحق ہو کيونکہ يہ ان کا فريضۂ منصبي ہے اور ڈالرز يا ريالات و دراہم اسي فريضے پر عمل کرکے ہي مل سکتے ہيں!کابل ميں عزادران حسين عليہ السلام پر خودکش حملہ ايک ايسے وقت کيا گيا-کہ ہر طرف سے امريکہ پر خصوصا امريکي عوام کيطرف سے، افغانستان سے نکلنے کيلئے دباؤ بڑھ رہا ہے- اور دوسري طرف وال اسٹريٹ پر قبضہ کرو تحريک بھي روز بروز بڑھتي ہي جارہي ہے، اس کے علاوہ مشرق وسطي کے لمحوں ميں بدلتے ہوئے حالات نے بھي شيطان بزرگ امريکہ کو پريشان کررکھا ہے لہذا وہ افغانستان سے نکلنے کے راستے بھي ڈھونڈ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کو ايسے حالت ميں چھوڑنا چاہتا ہے کہ اس ملک ميں اندروني سطح پر شيعہ سني فسادات کا بازار گرم ہو جائے جبکہ اس سے پہلے مکار لومڑي برطانيہ نے افغانستان کو لساني اور قومي و قبائلي تعصبات ميں مبتلا کررکھا ہے جس کي وجہ سے وہاں قوموں اور قبائل کے درميان اختلافات ہميشہ کے لئے موجود رہتے ہيں اور يہ اختلاف آج بھي حتي ملک کے سياسي اور انتظامي ڈھانچـے ميں دکھائي دے سکتے ہيں؛ اور اب امريکہ جانے سے پہلے افغانستان کوايک نئے وائرس يعني مذہبي فرقہ پرستي ميں مبتلا کرنا چاہتا ہے-افغانستان کي تاريخ گواہ ہے کہ اس ملک ميں فرقہ واريت کي بنياد پر کم ہي کوئي لڑائي جھگڑا رونما ہوا ہے- اس جنگ زدہ ملک ميں عشروں سے جاري لڑائي ميں اوليت لسانيت اور قوم و قبيلوں کي لڑائيوں کو حاصل ہے؛ گوکہ شيطان بزرگ امريکہ کے پيدا کردہ طالبان دور ميں شيعہ نسل کشي کي گئي ليکن وہ بھي ايک لڑائي نہيں تھي بلکہ يکطرفہ نسل کشي تھي-امريکہ کابل، قندہار اور مزار شريف ميں بيک وقت مذموم دہشت گردانہ کاروائيوں سے کئي مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے:ايک تو يہ کہ سابق صدر برہان الدين کے قتل کو پاکستان کے کھاتے ميں ڈالنے کيلئے مزيد ثبوت فراہم کئے جائيں کيونکہ جيسے ہي کابل ميں عزادران حسين ع پر خودکش حملہ ہوا، پاکستان ميں امريکي و اسرائيل مفادات کي تحفظ پر مامور کالعدم دہشت گرد ٹولے لشکر جھنگوي نے اس کي ذمہ داري قبول کرلي اور شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ لشکر جھنگوي نے اس حملے کي ذمہ داري اس لئے قبول کي ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درميان کشيدگي ميں اضافہ ہو، جس سے يہ بھي فائدہ ہوگا کہ امريکہ جب افغانستان سے نکلے گا تو پاکستان کيساتھ افغانستان کے خراب تعلقات کا سارا فائدہ ہندوستان اُٹھائے گا جو جنوبي ايشا ميں پاکستان اور چين کے خلاف امريکہ اور اسرائيل کا سب سے بڑا پارٹنر ہے-افغانستان ميں ہونے والے دھماکوں سے واضح طور پر اندازہ ہورہا ہے کہ جن لوگوں نے سابق صدر برہان الدين رباني کو قتل کيا ہے اُن ہي لوگوں نے يہ دھماکہ بھي کيا اور جس طرح کہ رباني پر حملہ آخر کار امريکہ کے مفاد ميں تھا يہ حملے بھي امريکي مفاد ميں انجام پائے ہيں اور منطق و عقليت کا حکم يہ ہے کہ جس شخص کو کسي عمل سے فائدہ مل رہا ہو اس عمل کا فاعل و عامل وہي شخص ہوسکتا ہے يا پھر اس کے کارندے اس ميں ملوث ہوسکتے ہيں چنانچہ رباني قتل اور عاشورا دھماکے اسي قوت کے ہوسکتے ہيں جس کو اس سے فوائد ملے ہيں اور وہ قوت شيطان بزرگ کے سوا کوئي نہيں ہے-جو امريکہ شيطان کے علاوہ کوئي اور نہيں-اس کے علاوہ امريکہ پاکستان کو نيٹو سپلائي بند کرنا اور جرمني ميں منقعدہ بون کانفرنس ميں شرکت نہ کرنے کي سزا بھي دينا چاہتا ہے کيونکہ امريکہ کو يہ توقع نہيں تھي کہ پاکستان جيسا ملک بھي وقتي طور ہي سہي، اس کي آنکھوں ميں آنکھيں ڈال کر بات کرے گا- اگرچہ پاکستاني حکمرانوں نے ايسا کچھ نہيں کيا ہے اور اگر تھوڑا بہت کيا بھي ہے تو وہ عوامي رائے عامہ کے دباؤ کي وجہ سے ہے-عاشورا حملوں کے ذريعے امريکہ ايک مقصد يہ بھي تھا کہ وہ ان حملوں کے ذريعے افغانستان ميں اپني ناکامي کو فرقہ وارانہ فسادات کے ذريعے چھپانا چاہتا ہے تاکہ کل اپني صفائي پيش کرنے کے لئے دعوي کرسکيں کہ امريکي افواج افغانستان سے طالبان اور القاعدہ کا صفايا کرنے کے اپنے مقصد ميں کامياب ہوچکي ہيں اب اس ملک کو فرقہ وارايت کا سامنا ہے تو يہ مسئلہ افغانستان کا اندروني مسئلہ ہے اور افغان حکومت کو خود ہي اپنا اندروني مسئلہ حل کرنا چاہئے- يہ تو امريکي مقاصد تھے جس کے حصول کے لئے اس کے نزديک کسي قسم کي اقدار اور معيار کي ضرورت نہيں ہے اور وہ اس راہ ميں انسانوں پر ايٹم بم بھي برسا سکتا ہے ليکن اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ ہماري بھي کچھ ذمہ دارياں ہيں اور ان ذمہ داريوں ميں دشمن شناسي شامل ہے اور پھر دشمن کي سازشيں ناکام کرني ذمہ داري ہے جو ہر اس فرد پر عائد ہوتي ہے جو مسلمان کہلاتا اور کہلواتا ہے چاہے وہ سني ہو يا شيعہ، اور دشمن شناسي کے بعد اتحاد کا مرحلہ ہے کہ جب معلوم ہوجائے کہ جانے پہچانے دشمن کا نشانہ تمام اہليان قبلہ ہيں تو ان سب کو مل کر اس دشمن کي سازشوں کو ناکام بنانا چاہئے اور روئے زمين پر ايسا افغانستان ابھارنا چاہئے جو شيعہ سني اتحاد کو بنياد بنا کر اپنے ہي پاğ پر کھڑا ہوسکے- يہ آج ہم سب کي ذمہ داري ہے کہ تمام مسلمانوں کے دشمن شناسي کے سلسلے ميں مدد پہنچانے کي غرض سے دشمنان اسلام کے تمام چہرے بے نقاب اور تمام سازشيں افشاء کرديں-