• صارفین کی تعداد :
  • 2055
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

اشاعت اسلام کے مرکزي ايشيا پر اثرات ( حصّہ سوّم )

بسم الله الرحمن الرحیم

روم و ايران اس وقت دنيا کي دو سُپر طاقتيں تھيں اور آباد دنيا کے نصف سے زيادہ حصے پر ان کي حکومت تھي؛ ليکن وہاں اخلاق و مروت، عدل و انصاف کا نام و نشان نہ تھا- روم اپني قديم يوناني علمي و مادي ترقيات کے باوجود انتہائي ذلت و پستي ميں پہنچ چکا تھا- ايران ميں آتش کدے روشن تھے، جن کے آگے سرِ نياز خم کيے جاتے تھے- پوري انساني سوسائٹي طرح طرح کي مذہبي و اخلاقي خرابيوں ميں ڈوبي ہوئي تھي- ہندوستان ميں بھي ابتري پھيلي ہوئي تھي- تمام ملک ميں بت پرستي کا زور تھا- ستاروں، پہاڑوں، درياؤ ں، درختوں ، حيوانوں پتھروں اور حتي کہ شرم گاہوں کي بھي پرستش کي جاتي تھي-

          يہودي قوم حضرت موسي عليہ السلام کي اصل تعليمات بھول کر دنيا کے مختلف خطوں اور گوشوں ميں ذلت کے ساتھ در در کي ٹھوکريں کھارہي تھي، خود عيسائي بھي حضرت عيسي عليہ السلام کي اصل دعوت اور پيغام کو چھوڑ کر انھيں خدا کا بيٹا مان چکے تھے- وہ انجيل ميں تحريف کرچکے تھے اور سينٹ پال پولس کي پيش کردہ عيسائيت کے پيروکار ہوچلے تھے- بدھ ازم چند سو سال کي آب و تاب کے بعد تيزي سے رو بزوال تھا- بدھ مذہب کے پيشوا خانقاہوں ميں تياگي بن کر بيٹھ گئے تھے- گوتم بدھ جو شرک کے خلاف مشن لے کر آئے تھے، ان کے ماننے والوں نے خود انھيں کو خدا بناکر ان کي پوجا شروع کردي تھي-

          غرض ساتويں صدي عيسوي تک روئے زمين پر ايسي کوئي قوم نہيں تھي جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہي جا سکے- نہ کوئي ايسا دين تھا جو انبيائے کرام عليہم السلام کي طرف صحيح نسبت رکھتا ہو- اس گھٹا ٹوپ اندھيرے ميں کہيں کہيں عبادت گاہوں ميں اگر کبھي کبھي کچھ روشني نظر آجاتي تھي، تو اس کي حيثيت ايسي ہي تھي جيسے برسات کي شب ديجور ميں جگنو چمکتا ہے- صحيح علم اتنا ناياب اور خدا کا سيدھا راستہ بتانے والے اتنے خال خال تھے کہ ايران کے بلند ہمت اور بے چين طبيعت نوجوان سلمان فارسي (رضي اللہ عنہ) کو ايران سے لے کر شام تک کے اپنے طويل سفر ميں صرف چار راہب ايسے مل سکے، جن سے ان کي روح کو سکون اور قلب کوذرا اطمينان حاصل ہوا؛غرض يہ کہ دنيا مذہبي کشاکش سے دو چار تھي اور انسانيت کي کشتي مسائل کے گرداب ميں چکر کھارہي تھي- کوئي ايسا باہمت شناور نہ دکھائي ديتا تھا جو اسے موجوں کے تلاطم سے بچا کر ساحلِ مراد تک پہنچاسکے- مايوسي کے اس عالم گير سناٹے ميں صحرائے عرب سے ايک صدا بلند ہوئي: