• صارفین کی تعداد :
  • 1483
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

عاشوراء کي عظمت کے اسباب (12)

مجلسِ شبِ عاشوره

غلام رضا گلي زوارہ

عاشورا کي ثقافت اور تعليمات نے ذلت اور عزت کا مختلف سا چہرہ دکھايا- ہدف کے اوپر استواري اور استقامت اور اس کي راہ ميں جان کا نذرانہ پيش کرنا، عزت ہے- مقدس ہدف سے ہاتھ کھينچنا اور موت کے خوف سے پسپائي، ذلت کے مترادف ہے- بنو اميہ کا بنيادي مسئلہ يہ تھا کہ انہيں ايسے امام کا سامنا کرنا پڑا، جن پر نہ تو وہ نفساني خواہشات کے ذريعے اثر انداز ہوسکے اور نہ ہي لشکرکشي اور قتل و غارت کے ذريعے- سيدالشہدا‏ عليہ السلام خندہ پيشاني، معنوي ہيبت اور روحاني قوت و اقتدار سے شدتوں اور دشواريوں کا خيرمقدم کيا کرتے تھے اور آپ (ع) کي پامردي، استقامت، مناعت طبع، وقار اور عزت نفس غير معمولي تھي- جب شمر بن ذي الجوشن يزيد کے گورنر عبيداللہ بن زياد سے شديدترين فرمان لے کر سرزمين کربلا ميں داخل ہوا اور امام (ع) سے کہا کہ يا تو ہتھيار ڈال ديں يا پھر جنگ کے لئے تيار ہوجائيں، تو آپ نے بآواز بلند شمر کو للکارا اور فرمايا: وائے ہو تم پر! تو نے ہمارے لئے کام خراب کرديا؛ خدا کي قسم! حسين وہ ہے جو اپنے دو پہلۆوں کے بيچ اس کے باپ علي (ع) کي روح رکھتا ہے اور حسين ہرگز سرتسليم خم نہيں کرے گا؛ (26) اور ايک دوسري روايت کے مطابق آپ (ع) نے فرمايا: خدا کي قسم! حسين اپنے پہلۆوں ميں بلنديِ طبع اور مناعت اور انکار کي طاقت ميں رکھتا ہے- (27)

اس انسان برتر نے روز عاشور، جبکہ اتنے سارے خونخوار اور ضدي دشمنوں ميں گھرے ہوئے تھے، يزيديوں نے پاني بند کررکھا تھا اور بچوں اور خواتيں کي آہ و فرياد آپ (ع) کے لئے اذيت و کرب کے اسباب فراہم کررہي تھي، موت کا خطرہ آپ (ع) کو بھي اور آپ (ع) کے فرزندوں اور انصار و اصحاب کے سروں پر منڈلا رہا تھا، اور نہايت خوفناک مستقبل حرم کي سيدانيوں،آپ (ع) کے فرزندوں اور اطفار کا انتظار کررہا تھا؛ انتہائے اطمينان اور خود اعتمادي کے ساتھ اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا: "خداوند متعال نے اس دن ميرے اور آپ سب کے قتل کا اذن جاري فرمايا ہے، خودداري اپناۆ اور جہاد کرو-

.......

مآخذ:

26- سوره احزاب، آيه 21-

27- الارشاد، شيخ مفيد، ص 213-

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عاشوراء کي عظمت کے اسباب (8)