• صارفین کی تعداد :
  • 1396
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

کون اسلامي معاشرے کا رہبر و پيشوا ہوسکتا ہے؟

 

محرم الحرام

اگر آج کہا جاتا ہے کہ ايران کا اسلامي نظام آج کے زمانے کي تحريکوں اور اسلامي ممالک کے لئے مثال اور نمونہ ہوسکتا ہے، اللہ کے فضل سے فيصلہ کن انداز سے کہا جاسکتا ہے کہ ايران کا اسلامي نظام حضرت امام خميني (رحمۃ اللہ عليہ) اور اسلامي انقلاب کے رہبر معظم حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي جيسے قائدين کے ہوتے ہوئے رہبري قيادت کے شعبے ميں بھي قيادت کے وہي معيار دنيا والوں کو پيش کرسکتا ہے جو امام حسين عليہ السلام نے بيان فرمائے ہيں-

بے شک سب سے بنيادي اور اہم مسئلہ جو آج بعض اسلامي ممالک کو درپيش ہے ـ اور ہم قرآن و عترت کي تعليمات کي برکت سے سے، جو اسلامي جمہوريہ ايران ميں را‏ئج ہيں، اس مسئلے سے محفوظ ہيں ـ وہ ان خصوصيات کي حامل قيادت کافقدان ہے- اگرچہ اللہ کے فضل سے مشرق و مغرب سے وابستہ بعض حکمرانوں کو سرنگوں کرنے کے لئے عوامي تحريکوں کا آغاز ہوچکا ہے ليکن ان خصوصيات کے حامل قائدين کو متبادل حکمرانوں کي حيثيت سے برسراقتدار لانا اہميت کے لحاظ سے ان کٹھ پتلي حکمرانوں کي سرنگوني سے کم نہيں ہے؛ کيونکہ ايک اسلامي نظام کي بقاء کا رمز اور کاميابي کا راز ايک ايسے قائد و رہبر کا وجود ہے جو امام حسين (ع) کے بيان کردہ اوصاف کا حامل ہو، کتاب خدا پر عمل کرنے والا، عدل و انصاف کا پابند ہو اور حق و حقيقت کے دائرے سے باہر نہ نکلے اور صرف و صرف خدا کے سامنے سراپا تسليم ہو اور اسي سے وابستہ ہو-

جب سنت کو مار ديا جائے اور بدعت کو زندہ کيا جائے

يہ ہر مسلمان کا بنيادي سوال ہے کہ اگر کسي دن وہ کسي معاشرے ميں قرار پائے اور ديکھ لے کہ لوگوں يا حکمرانوں نے دين کو تعطيل کرکے رکھ ديا ہے اور دين کے نام پر بدعتوں کو فروغ ديا ہے اور بدعتوں کي تعليم و ترويج اور ان پر عمل کو مطمع نظر بنا چکے ہيں تو ذمہ داري کيا ہے اور کرنا کيا چاہئے؟ کونسا احياء کرنے والا طبيب اور کونسا شفابخش نسخہ اس مہلک بيماري کا علاج کرسکتا ہے؟

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

حُرّ؛ نينوا کے آزاد مرد 3