• صارفین کی تعداد :
  • 1519
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

پياس کي تاريخ 4

عاشوره

يزيد کے گماشتوں کي قساوت و سنگدلي اپنے عروج پر تھي؛ يہ وہي تھي جنہوں نے امام کو مدينہ سے آنے کي دعوت دي اور آپ (ع) کي جانب قاصد روانہ کئے ليکن اب وہ يزيد کي صف ميں کھڑے ہوکر پيمان شکني کے ثبوت فراہم کررہے تھے اور اب ان کي شمشيريں امام (ع) کي طرف اٹھ رہي تھي-

گھمسان کي جنگ ہے، تھکاوٹ کي گرد چہرہ امام (ع) پر بيٹھ گئي ہے، کبھي خيام کي طرف جا کر صورت حال کي نگراني کرتے ہيں اور کبھي ميدان کارزار کي طرف، حرم رسول (ص) کے بچے، پياس کي شدت سے اپنا پيٹ زمين کي رطوبت پر رکھتے تھے، اور سيدالشہداء (ع) کے لئے بچوں کي اس حالت کا مشاہدہ بہت دشوار ہے-

پياسوں کي تاريخ ميں ہے کہ عاشورا کے واقعات کے طوفاں ميں امام (ع) کے فرزندوں ميں سے ايک طفلِ شيرخوار پياس کي شدت سے پاني سے نکالي گئي مچھلي کي مانند تلظّي (6) کر رہا تھا-

حرم کي بيبيوں نے طفلِ عطشان کو ابن رسول (ص) کے سپرد کيا تا کہ اگر ممکن ہوا تو امام (ع) طفل کو سيراب کريں- اربابِ مَقاتِل نے لکھا ہے کہ امام (ع) نے اس شيرخوار کو سپاہ يزيد پر اللہ کي حجت قرار ديا اور فرمايا:

اب جبکہ تم مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہو اور مجھ پر رحم نہيں کرتے ہو اس شيرخوار طفل پر رحم کرو-

لشکر يزيد کے اشقياء نے امام (ع) کے جواب ميں ايک تير پھينکا اور شيرخوار بچے کا گلا ايک کان سے دوسرے کان تک کٹ گيا- امام (ع) نے طفل شيرخوار کا خون اپنے ہاتھوں ميں بھر ديا اور خون کو آسمان کي طرف اچھالا تا کہ حجت ہو آپ (ع) کے دشمنوں کے لئے اور يہ وعدہ الہي ہے جس کا آغاز زمزمِ اسمعيل سے ہوا اور علي اصغرِ حسين کي شہادت پر مکمل ہوگيا ہے تا کہ علي اصغر کا زمزم ہر پياسے کو سيراب کرے [بشرطيکہ وہ اس زمزم سے سيراب ہونا چاہے]-

سيدمحمدرضا آقاميري

بخش تاريخ و سيره معصومين تبيان

.......

مآخذ:

6. تلظي قرآن کي سورةالليل کي آيت14 ميں بھڑکتي ہوئي آگ کے معني ميں آيا ہے اور جانکني کے وقت ہانپنے اور سانس اکھڑنے کے معني ميں بھي آيا ہے-

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

امام حسين (ع) کي فکرمندي کيا تھي؟- 5