• صارفین کی تعداد :
  • 1542
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 25

عاشوره

اموي حکمرانوں اور امام حسين عليہ السلام کے قاتلوں کي رسوائي اس حد تک بڑھ گئي کہ واقعہ کربلا کے چند ہي سال بعد کسي اموي ميں يہ جرأت نہ تھي کہ وہ اس خاندان سے اپني نسبت آشکار کردے اور يہي نہيں بلکہ اموي حکمرانوں کے مردہ جسموں کو قبروں سے باہر کھينچا گيا اور ان کي ہڈيوں کو جلاديا گيا-

بے شک! منحوس اموي خاندان کي پيشرفت کے تمام راستے ہموار تھے، امت ميں اموي بدعتيں آندھي طوفاں کي طرح پھيل رہي تھيں ليکن اچانک سيدالشہداء عليہ السلام نے قيام کيا اور امويوں کي گمراہيوں اور بدعتوں کا سلسلہ رک گيا اور دشمنان اسلام رسوا ہوگئے اور ابوسفيانيوں کي بساط الٹ گئي-

"پروفيسر نکلسن" کہتے ہيں: "کربلا کا حادثہ حتي امويوں کي پشيماني اور تأسف کا باعث بن گيا کہ اس واقعے کے بعد اس واقعے کے بعد شيعيان اہل بيت رسول صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم متحد ہوگئے اور خون امام حسين عليہ السلام کا انتقام لينے کے لئے ہمصدا ہوگئے- شيعيان حسين (ع) کي صدا عراق ميں پھيل گئي اور عربوں کے تسلط سے نجات پانے کے متلاشي ايرانيوں کو اپني جانب متوجہ کرگئي"- (20)

يزيديوں اور امويوں کي شکست کے شواہد ميں سے ايک وہ زمانہ ہے جب امام علي بن الحسين زين العابدين عليہ السلام نے کوفہ ميں خطبہ ديا اور دشمنان خدا کي حقيقت کو سوئے ہوئے مسلمانوں کے لئے آشکار کرديا چنانچہ لوگوں نے يک زباں ہوکر عرض کيا: " فقالوا بأجمعهم: نحن كلنا يا ابن رسول الله سامعون مطيعون حافظون لذمامك غير زاهدين فيك ولا راغبين عنك فمرنا بأمرك يرحمك الله فانا حرب لحربك، وسلم لسلمك، لنأخذن يزيد ونبرأ ممن ظلمك وظلمنا"- ...

............

مآخذ

20- ترجمه تاريخ سياسى اسلام، ج 1 ص 352- به نقل از كتاب ماهيت قيام مختار، ص 201-

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 21