• صارفین کی تعداد :
  • 1578
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 22

عاشوره

... ايک طرف سے امام حسين عليہ السلام کي مصلحانہ اور الہي تحريک تھي اور دوسري جانب سے آپ (ع) نے اپني پوري ہستي کربلا ميں اسلام پر قربان کردي تھي اور تيسري جانب سے واقعہ عاشورا کا الميہ بہت ہي المناک، غم انگيز اور امام کي مظلوميت بے انتہا تھي اور اس قرباني کے ان تين اہم اور نماياں پہلۆوں نے امت کو خبردار کيا، مسلمانوں کے خواب غفلت کو پريشاں کرديا اور مرد کالبدوں کو زندہ کيا، اور پژمردگي کا شکار ہونے والے اسلام کے شجرہ طيبہ کي اپنے خون سے آبياري کرکے اس کو طراوت اور شادابي بخش دي تاکہ يہ درخت ابد تک سبز و خرم رہے-

حق طلبوں اور حق مداروں کي قحط سالي کے اس دور ميں، جب نيزوں اور شمشيروں اور قتل و غارت و دہشت گردي کے سائے ميں، ظلم و شرک اور برائي حکمروائي تھي اور ہر طرف سے خاموشي چھائي ہوئي تھي اور جمود طاري تھا، حسين (ع) نے فرياد کا تازيانہ امت کے پيکر خفتہ، نہيں بلکہ جسم مردہ، پر وارد کيا اور ايسا شوق و اشتياق اور جوش و جذبہ پيدا کيا کہ لوگ بيدار  ہي نہيں بلکہ زندہ ہوگئے اور اس بيداري اور حيات نو کے ذريعے افراد امت سے محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم و علي (ع) کے انقلاب اور حسن مجتبي (ع) کے صبر کي پاسداري اور قرآن و اسلامي رسالت نيز اپنے خون کے تحفظ کا مطالبہ کيا-

خونِ حسين (ع) آب حيات کي مانند تھا جس نے سوکھے ہوئے مايوس اور مردہ جسموں ميں حيات نو ڈال دي اور يہ خون دنيا ميں عظيم انقلابات کا پيش خيمہ ثابت ہوا- اور ہاں! عصر عاشورا تحريک حسيني کي انتہا نہ تھا بلکہ يہ امت کے قيام اور ملت اسلام بالخصوص عالم تشيع کے قيام و بيداري کا آغاز تھا...

.......

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 18