• صارفین کی تعداد :
  • 1340
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 9

محرم الحرام

... سوال: کربلا ميں امر و نہي کي شرائط نہيں تھيں ايسي صورت ميں امام حسين عليہ السلام کي شہادت امر بالمعروف اور نہي عن المنکر يا امر و نہي کا محرک کيونکر ہوسکتي ہے؟"-

اس سوال کا جواب يہ ہے کہ انسان کبھي ايک دوراہے پر قرار پاتا ہے کہ يا تو وہ اپنے دين اور وطن کي نجات کے راستے ميں موت اور ہلاکت کو گلے لگائے يا پھر اپني جان بچا کر دين اور وطن کے تحفظ کو اپني ذمہ داري ہي نہ سمجھے- اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ ايسي صورت ميں اس کو شہادت اور ايثار کا راستہ اپنانا پڑے گا تا کہ وہ ان قطعي قاعدوں پر عمل کو يفيني بنا سکے: "زيادہ اہم کو کم اہم پر مقدم رکھنا چاہئے" اور "چھوٹے نقصان کو قبول کرکے بڑے نقصان کا سد باب کرنا چاہئے"- اور جيسا کہ ہم جانتے ہيں يزيد بن معاويہ کے دورے ميں صورت حال اس حد تک پہنچي تھي کہ فسق و فجور اور تحريف اسلام کے خلاف قيام و انقلاب واجب اور فريضہ الہي بن چکا تھا خواہ  يہ انقلاب امام حسين عليہ السلام کي شہادت اور خاندان رسالت کي اسارت پر ہي منتج کيوں نہ ہو- اور ہاں! اگر ضرر سے بچ کر رہنا ايک مطلق اور غير مقيد اور غير مشروط فريضہ ہوتا جہاد ہرگز مسلمانوں پر فرض نہ ہوتا بلکہ خدا کي راہ ميں شہادت اللہ کي نافرماني اور معصيت سمجھي جاتي!؛ حالانکہ ايسا نہيں ہے-

استاد شہيد آيت اللہ مطہرى رحمۃاللہ عليہ فرماتے ہيں: "بڑے مسائل ميں امربالمعروف اور نہي عن المنکر کي کوئي سرحد نہيں ہے، کوئي بھي چيز، کوئي بھي امر محترم امربالمعروف اور نہي عن المنکر کے برابر نہيں ہوسکتا اور امربالمعروف اور نہي عن المنکر کا راستہ نہيں روک سکتا- اس امر کا دارومدار اس بات پر ہے کہ امربالمعروف اور نہي عن المنکر ہے کيا؟

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 5