• صارفین کی تعداد :
  • 1256
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 8

محرم الحرام

ليکن رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد لوگ سيدھے محمدي راستے سے منحرف ہوگئے اور ايسے لوگوں کو اقتدار پر قابض ہونے ديا جو بار بار اپني نا اہلي کا اعتراف کرچکے ہيں اور ان کے يہ اعترافات تاريخ و حديث اور تفسير کي کتابوں ميں محفوظ ہيں- وصال رسول صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بعد امت اور اسلام پر وارد ہونے والي اس مصيبت کا اہم سبب عوام کا جہل اور امر بالمعرف اور نہي عن المنکر سے ان کي بے اعتنائي اور بے توجہي سے عبارت تھا- اور امام حسين عليہ السلام مصلحانہ تحريک و قيام کا آغاز کرکے ان دو الہي فرائض کے احياء کنندہ ٹہرے اور اپنے قيام کا فلسفہ "اپنے نانا کي امت کي اصلاح اور امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کا احياء" قرار ديا- سيدالشہداء عليہ السلام نے اپنے قيام کے ذريعے ان دو اسلامي اصولوں کو آبرو اور اعتبار سے نوازا اور دنيائے اسلام ميں ان کي قدر و قيمت ميں اضافہ کرديا- يعني ايسے حال ميں کہ دوسرے لوگ امربالمعروف اور نہي عن المنکر کا فريضہ اپنے ذاتي مفاد کي سرحد پر روک ليتے ہيں اور اس کي قيمت گھٹا ديتے ہيں، ليکن حسيني تحريک نے امر و نہي کي تمام سرحديں مٹا ديں اور انہيں تمام امور اور پوري دنيا تک وسعت عطا کي-

کبھي کہا جاتا ہے کہ: "شيعہ فقہاء نے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر ہي کے لئے شرائط متعين کي ہيں اور ايک اہم شرط يہ ہے کہ امر و نہي کرنے والے شخص کو جان و مال اور ناموس کا خطرہ لاحق نہ ہو- ايسي صورت ميں امام حسين عليہ السلام کي شہادت امر بالمعروف اور نہي عن المنکر يا امر و نہي کا محرک ہوسکتي ہے؟"-

 

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 4