• صارفین کی تعداد :
  • 2503
  • 3/5/2012
  • تاريخ :

موجودہ دور ميں افغانستان کے مختلف شہروں ميں عيد نوروز

جشن نوروز

دارلحکومت " کابل " ميں نوروز کا جشن

طالبان کي حکومت کے خاتمے کے بعد پھر سے نوروز کا جشن مناۓ جانے کا اہتمام کيا جانے لگا ہے -  ماضي قريب ميں افغانستان جنگ زدہ علاقہ ہونے کي وجہ سے يہاں کے لوگ عيد نوروز سے پوري طرح سے لطف  اندوز نہيں ہو پاۓ ہيں مگر اس سال افغانستان کے لوگوں نے کابل ميں بڑے اچھے طريقے سے نوروز کو منايا -  اس سال کابل شہر ميں ہزاروں کي تعداد ميں لوگ پرچم کي رونمائي کے ليۓ جمع ہوۓ اور انہوں نوروز کے اس رواج کو بڑے اچھے انداز ميں منايا -

کہا يہ جاتا ہے کہ لوگوں کي اتني بڑي تعداد  ماضي ميں پہلے کبھي بھي نہيں جمع ہوئي تھي - اس بات سے اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ نوروز کا جشن افغانستان کے لوگوں ميں ماضي کي نسبت زيادہ مقبول ہوتا جا رہا ہے -

بدخشان ميں عيد نوروز

بدخشان افغانستان کا وہ علاقہ ہے جہاں پر تاجک نسل کے افغاني آباد ہيں جو  اصل فارسي نسل سے ہيں -  سال کے پہلے دن  صوبہ بدخشان  ميں شغنان ، واخان ، درواز ، اور مرغاب کے لوگ گلي محلوں ميں خوشياں مناتے ہيں -

بدخشان کے اکثر لوگ اپنے گھروں ميں دائروں کي شکل ميں بيٹھتے ہيں اور دف بجا کر عيد نوروز کے گيت گاتے ہيں - دف بجانے کا يہ سلسلہ سورج کي روشني ميں بھي جاري رہتا ہے -

دف کي اس آواز پر بدخشان کے لوگ بہار کو خوش آمديد کہتے ہيں -  بدخشان ميں اس جشن کا نام  "شاگون" و " خدير ايام" رکھا گيا  ہے  اور يہاں کے مقامي لوگ کلمہ " شاگون " کو خوش بختي  اور خوشي کے معني ميں ليتے ہيں جبکہ خدير ايام  ايک بڑے جشن کے معنوں ميں آتا ہے - اس جشن کو تمام ثقافتي اور مذھبي مراسم سے زيادہ اہميت حاصل ہے -  نوروز کا جشن بدخشان کے لوگوں ميں بہت مقبول ہے اور يہ اس علاقے کا قديم ترين جشن ہے کہ جہاں دور قديم کي ياديں اب بھي اس جشن ميں باقي ہيں -

اس علاقے ميں جشن نوروز کي مقبوليت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ اس جشن کو منانے کے ليۓ سارا سال تياري کي جاتي ہے اور اس دن کا بڑي شدت سے انتظار کيا جاتا ہے -

اس موقع پر ہر خاندان کي يہ کوشش ہوتي ہے کہ خاندان کے ہر فرد کے ليۓ نيا لباس بنوايا جاۓ کيونکہ لوگوں ميں يہ بات مشہور ہے کہ عيد نوروز کے ليۓ نيا لباس تيار کرنے اور اسے اس موقع پر استعمال کرنے سے خوش بختي نصيب ہوتي ہے اور يوں اسے اچھا شگون تصور کيا جاتا ہے -

تحرير : سيد اسداللہ ارسلان