• صارفین کی تعداد :
  • 503
  • 5/16/2012
  • تاريخ :

منٹو اور خدا

منٹو

منٹو مياں، ہم تو ٹھہرے جج، ہمارا تو کام ہي تم جيسے ادبي تخريب کاروں کي گوشمالي کرنا ہے-  تم کٹہرے ميں، ہم کرسي پر، تو ظاہر ہے ہماري تمہاري دشمني تو سمجھ ميں آتي ہے- کوئي ملزم منصف کا دوست کيسے ہوسکتا ہے- ليکن تم نے تو اپنے قبيلے کے لوگوں کو بھي ناراض کيا- فلم پروڈيوسرز بھي تم سے خفا، ادبي نقاد تمہارے خلاف، رُجت پسند تمہارے دشمن، ترقي پسند تم سے بيزار-

اور تو اور تمہيں لاہور ميں نوکري دينے والے مدير مولانا چراغ حسن حسرت کے بارے ميں تم نے اپنا مشہور مضمون ان کي موجودگي ميں پڑھا تو انہوں نے فرمايا يہ منٹو کيا بکواس کر رہا ہے- اسے چپ کراؤ-

کيا زندگي ميں اتنے دشمن کافي نہيں تھے کہ اپنے خالق سے بھي مقابلہ کرنے بيٹھ گئے وہ کيا کہہ گئے تھے کہ ميرے کتبے پر لکھا جائے کہ يہاں منٹو دفن ہے اور ابھي تک سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے يا خدا-

وہ تو بھلا ہو تمہارے لواحقين کا جنہوں نے تمہاري بات نہ ماني ورنہ تمہاري قبر کا کتبہ بھي کسي جج کے کٹہرے ميں پايا جاتا- انہوں نے اچھا کيا کہ غالب کے مصرعے کا حوالہ ديا کہ يہ سعادت حسن منٹو کي قبر ہے جو اب بھي سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہيں تھا-

غالب کے بہت سارے فوائد ہيں ان ميں سے ايک يہ بھي ہے کہ باقي لوگوں کي طرح ججوں کو بھي سمجھ نہيں آتا کہ کيا کہہ رہا ہے-

منٹو مياں سچي بات يہ ہے کہ تمہاري تحريروں سے ہمارے نئے ملک کو ہي نہيں بلکہ ہمارا قديم مذہب بھي خطرے ميں پڑجاتا تھا- تمہارے جانے کے بعد تو ہمارا ايمان ہر وقت خطرے ميں رہتا ہے- کيا کريں معاملات ہي اتنے نازک ہيں-

ملک ہي نہيں مذہب کو بھي خطرہ

منٹو مياں سچي بات يہ ہے کہ تمہاري تحريروں سے ہمارے نئے ملک کو ہي نہيں بلکہ ہمارا قديم مذہب بھي خطرے ميں پڑجاتا تھا- تمہارے جانے کے بعد تو ہمارا ايمان ہر وقت خطرے ميں رہتا ہے- کيا کريں معاملات ہي اتنے نازک ہيں- تم تو لکھتے تھے، تمہاري کہانياں لوگ پڑھتے تھے اس ليے ان کا ايمان خطرے ميں پڑتا تھا- اب تو ہمارے پاس ايسے ايسے کيس آتے ہيں کہ تمہاري کہانياں بچوں کي الف ليليٰ لگتي ہيں-

تم تو لکھتے تھے، تمہاري کہانياں لوگ پڑھتے تھے اس ليے ان کا ايمان خطرے ميں پڑتا تھا- اب تو ہمارے پاس ايسے ايسے کيس آتے ہيں کہ تمہاري کہانياں بچوں کي الف ليليٰ لگتي ہيں-

بلقيس نامي ايک گنوار عورت ہے نہ پڑھ سکتي ہے نہ لکھ سکتي ہے کھيتوں ميں دوسري عورتوں سے جھگڑا ہوا پتہ نہيں کيا کہ بيٹھي، سالوں سے کال کوٹھڑي ميں بند ہے- اب ہميں يہ بھي نہيں پتہ کہ اس نے کيا کيا تھا- معلوم کريں گے تو ہم بھي اس جرم کے مرتکب ہوں گے جو اس نے کيا تھا- اب اس نے کس شانِ کريمي ميں کيا گستاخي کي تھي کچھ پتہ نہيں- اب دوسروں کے گناہوں کو ثابت کرتے کرتے خود تو گناہ گار نہيں بن سکتے- اس ليے بلقيس کے ليے بھي اور ملک خداداد کے ليے بھي يہي بہتر ہے کہ وہ کال کوٹھڑي ميں ہي بند رہے-

اب بتاؤ کون ہو گا منٹو جو يہ کہاني لکھ پائے گا- شکر کرو جواني ميں اس ذلت کي زندگي سے جان چھوٹي- اميد ہے اب حوضِ کوثر کے کنارے جي بھر کے پي رہے ہو گے اور اپنے خالق کے ساتھ وہي پراني بحث چھيڑ کر بيٹھے ہوگے کہ بڑا افسانہ نگار کون ہے-

تحربر:  محمد حنيف

پیشکش: شعبہ تحریر و پیشکش تبیان