• صارفین کی تعداد :
  • 4346
  • 2/29/2012
  • تاريخ :

كاش ہم بھى قارون جيسے ہوتے

بسم الله الرحمن الرحیم

جيسا كہ دنيا كا معمول ہے قارون كى جاہ و حشمت كو ديكھ كر لوگوں كے دوگروہ ہوگئے_دنيا پرست كثريت نے جب اس خيرہ كن منظر كو ديكھا تو ان كے دل ميں تمنائيں مچلنے لگيں_ انھوں نے ٹھنڈى آہ بھرى اور كہنے لگے كہ كاش وہ بھى قارون جيسى دولت كے مالك ہوتے_ خود ايك دن،ايك ساعت يا ايك لمحے ہى كے لئے يہ شكوہ نصيب ہوتا_آہاس كى كيسى شيريں،جذاب ،نشاط انگيز اور لذت بخش زندگى ہے

چنانچہ قرآن ميں فرمايا گيا ہے:''جو لوگ دنياوى زندگى كے طلب گار تھے_انھوں نے كہا كہ كاش ہمارے پاس بھى اتنى دولت ہوتى جتنى قارون كے پاس ہے''_

حقيقت ميں اس كے پاس تو دولت كا فراواں حصہ ہے_ آفرين ہے قارون پر اور اس كى بے پناہ دولت پر،واہ اس كا كيا جاہ و جلال ہے،اور كتنے خادم اور نوكر چاكر ہيں،تاريخ ميں اس جيسا كوئي شخص نہيں ہے_ يہ عظمت اسے خدا نے عنايت كى ہے_ غرض لوگ اسى طرح كى باتيں كرتے تھے_

درحقيقت اس واقعے ميں امتحان كى ايك بہت بڑى بھٹى جل رہى تھي_ اس بھٹى كے بيچ ميں قارون تھا_ تا كہ وہ اپنى سركشى اور غرور كا امتحان دے_ دوسرى طرف بنى اسرائيل كے دنيا پرست لوگ اس بھٹى كے گرد اگرد مقيم تھے_ليكن قارون كے لئے ايك درد ناك عذاب تھا_ ايسا عذاب جو ايسى نمائشے كے بعد ہوتا ہے_ يہ عذاب اوج عظمت سے قصر زمين ميں لے جاتا ہے_

ليكن اس دنيا طلب بڑے گروہ كے مقابلے ميں ايك اقليت اہل علم صاحبان فكر،پرہيزگار اور با ايمان لوگوں كى بھى وہاں موجود تھى جن كا افق فكر ان مسائل سے بر تر اور بالا تر تھا_ يہ وہ لوگ تھے جن كے نزديك احترام شخصيت كا پيمانہ زر اور زور نہ تھا_ ان كے نزديك انسان كى قدر كا معيار اس كے مادى وسائل نہ تھے_ يہ وہ لوگ تھے كہ دولت و ثروت كى عارضى اور مضحكہ انگيز نمود و نمائشے پر تمسخر آميز طور پر مسكرا ديتے تھے،اور اسے ايك بے مغز اور غير حقيقى شئي سمجھتے تھے_

چنانچہ قرآن ميں مذكور ہے كہ:وہ لوگ جنہيںعلم و معرفت عطا ہوئي تھي،انھوں نے كہا : ''تم پر افسوس ہےيہ تم كيا كہہ رہے ہو؟ جولوگ ايمان لائے ہيں اور عمل صالح كرتے ہيں،ان كے لئے خداكى طرف سے ثواب اور جزا بہتر ہے''_ ان الفاظ پر انھوں نے يہ اضافہ كيا كہ يہ ثواب الہى صرف ان لوگوں كا نصيب ہے جو صابرين ہيں_

قارون نے سركشى اورخدا كى نافرمانى كر كے اپنے آپ كو بہت بڑا سمجھ ليا تھا_ مگر تواريخ اور روايات ميں اس كے متعلق كچھ اور ہى واقعہ بيان ہوا ہے جو قارون كى انتہائي بے شرمى كى علامت ہے_اور وہ ماجرا يہ ہے كہ ايك روز حضرت موسى عليہ السلام نے قارون سے كہا كہ خدا نے مجھے يہ حكم ديا ہے كہ تيرے مال ميں سے زكوة لوں جو محتاجوں كا حق ہے_

جب قارون زكوة كى ادائيگى كے اصول سے مطلع ہوا اور اس نے حساب لگايا كہ اسے كتنى كثير رقم دينا پڑے گى تو اس نے انكار كرديا اور اپنے آپ كو بچانے كے لئے حضرت موسى عليہ السلام كى مخالفت پر آمادہ ہوگيا_ بنى اسرائيل كے دولت مندوں كى ايك جماعت كے سامنے كھڑا ہوا اوركہا:

''اے لوگوموسى چاہتا ہے كہ وہ تمہارى دولت خود ہضم كرلے_ اس نے تمہيں نماز كا حكم ديا تم نے قبول كيا_اس كے دوسرے احكامات بھى تم نے مان لئے _ كيا تم يہ بات بھى برداشت كر لوگے كہ اپنى دولت اسے دے دو؟

قصص القرآن

منتخب از تفسير نمونه

تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي

مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم

تنظيم فارسى: حجة الاسلام و المسلمين سير حسين حسينى

ترتيب و تنظيم اردو: اقبال حيدر حيدري

پبليشر: انصاريان پبليكيشنز - قم

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان